صلاح الدین زین
نئی دہلی :
دارالحکومت نئی دہلی میں وقف بورڈ نے لودھی روڈ کے پاس واقع صدیوں پرانی لال مسجد کو منہدم کرنے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا ہے، جس پر مرکزی حکومت نے دہلی ہائی کورٹ سے مسجد کو 29 اپریل تک منہدم نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اس سے قبل دہلی کی پولیس نے مسجد کے امام کو آگاہ کیا تھا کہ وہ مسجد خالی کر دیں کیونکہ اسے منہدم کیا جا رہا ہے۔ اسی خبر کے بعد وقف بورڈ نے عدالت سے رجوع کر کے اس تاریخی مسجد کو بچانے کی عرضی دی تھی۔
معاملہ کیا ہے؟
دہلی وقف بورڈ کا کہنا ہے کہ یہ تاریخی مسجد صدیوں پرانی ہے جسے دہلی کے مسلم حکمرانوں نے تعمیر کیا تھا اور ملک کی آزادی کے بعد سن 1970 کی حکومتی دستاویزات میں بھی یہ پورا علاقہ مسلم قبرستان اور لال مسجد کے نام سے درج ہے۔
تاہم مودی کی حکومت نے 2017 میں اس بڑے تاریخی مسلم قبرستان کو اپنے قبضے ميں لے کر اس پوری اراضی کو نیم فوجی یونٹ سینٹرل ریزرو پولیس فورسز (سی آر پی ایف) کے حوالے کر دیا تھا۔ اس کا مقصد یہاں فورسز کے لیے نئی بیرکیں اور ان کے دفاتر تعمیر کرنا تھا۔
اس وقت دہلی وقف بورڈ نے حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی اور اس زمین کے مسئلے پر ایک ٹریبونل تشکیل دینےکا اعلان کیا تھا تاکہ قبرستان اور مسجد کو بچا یا جا سکے۔
تازہ عدالتی کارروائی کے دوران وقف بورڈ نے کورٹ میں جو دستاویزات پیش کی ہیں اس میں بھی اس بات کا ذکر ہے کہ حکومت نے سی آر پی ایف کی رہائش کے لیے عمارت تعمیر کرنے کے مقصد سے زمین لیتے وقت قبرستان اور مسجد کو تحفظ فراہم کر نے کا وعدہ کیا تھا۔
قبرستان ختم، مسجد توڑنے کی تیاری
سن 2017 میں اس زمین پر قبضے کے بعد سے ہی سی آر پی ایف نے تیزی سے یہاں تعمیرات کا آغاز کر دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں قبرستان اب تقریباًختم ہو چکا ہے اور صرف مسجد کا حصہ باقی بچا ہے جسے سی آر پی ایف توڑنے کی تیاری کر رہی ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں ایک سول عدالت نے اس اراضی پر حکومت کی ملکیت کو درست بتایا ہے، اس لیے اب یہ اس کی اپنی زمین ہے اور اس کی تمام تعمیراتی سرگرمیاں درست ہیں۔ لیکن دہلی وقف بورڈ کا کہنا ہے کہ ابھی اس بارے میں ٹریبونل کا فیصلہ آنا باقی ہے اس لیے اس کا قبضہ غلط ہے۔
دہلی ہائی کورٹ نے اسی پر وضاحت طلب کی تھی اور سی آر پی ایف سے جواب طلب کیا تھا۔ اسی کے جواب میں حکومت نے عدالت کو 29 اپریل تک کوئی کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
عدالت میں وقف بورڈ کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر وکیل سنجے گھوش نے کہا کہ مسجد تو وہاں پر صدیوں سے ہے: ’’اس کا انہدام ایک نا قابل تلافی نقصان ہوگا۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ٹریبونل اس اراضی پر اپنا فیصلہ نہیں سناتا اس وقت تک مسجد کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔
آزادی سے قبل غیر منقسم ہندوستان کے دور کی بہت سی شاندار مساجد کا اب دہلی میں نام و نشان تک نہیں ہے۔ ایسے بہت سے علاقوں پر حکومت نے قبضہ کر کے یا تو دفاتر بنا لیے ہیں یا پھر مقامی لوگوں نے ان کو توڑ پھوڑ کر اپنے قبضے میں کر لیا ہے۔
تاریخی قطب مینار کے مہر ولی علاقے کی ایسی درجنوں مسجدیں مسمار کی جا چکی ہیں اور وہاں نئی عمارتیں کھڑی کی جا چکی ہے۔ مسلم تنظیمیں یا فلاحی اداروں نے انہیں بچانے کی کوشش کی تاہم عدالتوں نے بھی توجہ نہیں دی۔
لال قلعے کے پاس چاندنی چوک کے علاقے میں آج بھی ایسی درجنوں مساجد میں دکانیں اور کاروباری مراکز قائم ہیں جو مغیلہ دور کی شاندار عبادت گاہیں ہوا کرتی تھیں۔ تعجب اس بات پر ہے کہ ان میں سے بہت سی مساجد کی محرابیں اور ان کے گنبد ویسے ہی سلامت ہیں تاہم کوئی سننے اور دیکھنے والا نہیں ہے۔
(بشکریہ ڈی ڈبلیو نیوز)