لکھنؤ:
اتر پردیش کی یوگی حکومت آبادی کنٹرول سے متعلق ایک قانون لانے جارہی ہے۔ اسٹیٹ لاء کمیشن نے آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے قانون کا مسودہ تیار کرنا شروع کردیا ہے۔ اترپردیش میں اس نئے قانون کو بنانے کے لئے کمیشن نے دیگر ریاستوں میں لاگو قانون کا مطالعہ بھی شروع کردیا ہے۔ جلد ہی کمیشن اپنا مسودہ (رپورٹ) تیار کرکے حکومت کوسونپے گا۔
آبادی کنٹرول پر قانون بنانے کے بعد اترپردیش میں اب 2 سے زیادہ بچوں کے والدین کو آنے والے وقت میں سرکاری سہولیات اور سبسڈی سے محروم ہونا پڑسکتا ہے ۔ بتایا جارہاہے کہ اترپردیش اسٹیٹ لاء کمیشن نے آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے قانون بنانا شروع کردیا ہے ۔
مانا جارہاہے کہ لاء کمیشن اگلے 2 مہینے میں اپنی رپورٹس ریاستی حکومت کو سونپ دے گا۔ کمیشن نے مدھیہ پردیش ، راجستھان سمیت دیگر ریاستوں میں لاگو قانون کا مطالعہ کرنا شروع کردیا ہے ۔ موصولہ اطلاع کے مطابق اس نئے قانون سے دو سے زیادہ بچوں کے والدین کو سرکاری سہولیات یا ملنے والی سبسڈی میں کٹوتی پر غور کیا جارہاہے۔
کمیشن بڑھتی آبادی سے پیدا ہورہی بے روزگاری و سرکاری اسکیموں کا فائدہ ملنے میں آرہی پریشانیوں کا بھی جائزہ لے رہاہے ، تاکہ قانون بنا کر سختی بھی کی جائے اور لوگوں کو بیدار بھی کیا جائے ۔
اسٹیٹ لاء کمیشن کے چیئرمین آدتیہ ناتھ متل کے مطابق بڑھتی آبادی کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ جو لوگ آبادی پر کنٹرول کرنے میں مدد کر رہے ہیں ، انہیں سرکاری سہولتوں کا فائدہ ملتا رہنا چاہئے، لیکن جو لوگوں ان پر عمل نہیں کررہے وہ ان سہولتوں کا فائدہ نہیں لینا چاہتے وہ آزاد ہیں۔ آبادی کنٹرول خاندانی منصوبہ الگ ہے ۔ یہ کسی خاص مذہب یا انسانی حقوق کے خلاف نہیں ہے۔
اس قانون سے بس کوشش ہے کہ سرکار ی وسائل اور سہولتیں ان لوگوں کو ضرور دستیاب ہو جو آبادی کنٹرول میں تعاون اور مدد فراہم کررہے ہیں۔ اسٹیٹ لاء کمیشن کئی نکات پر غور کرکے اس قانون کا مسودہ تیار کررہا ہے ۔ مسودہ تیار ہونے کے بعد ریاستی حکومت کو سونپا جائے گا۔
غور طلب ہے کہ آسام کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر ہیمنت بسوا سرما نے جمعرات کے روز ہی ریاست کے اقلیتی مسلم عوام سے آبادی پر کنٹرول کرنے کے لیے خاندانی منصوبہ اپنانے کی اپیل کی تھی۔ انہوں نے کہاکہ آبادی ہر سماجی بحران کی اصل وجہ ہے اور اگر ہم اسے کنٹرول کرلیں تو سماجی برائی اپنے آپ کم ہو جائے گی۔