ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
جمہوریت ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں عوام اپنے ووٹ کا استعمال کرکے اپنے نمائندے منتخب کرتی ہے، جس کے بعد منتخب نمائندوں کی دستوری ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کے دستوری و جمہوری مفادات کے تحفظ میں آواز بلند کریں گے، تاہم اگر عوام کے دستوری حقوق جمہوری حکومت یا اس کی کسی پالیسی یا قانون کے ذریعے سلب کئے جاتے ہیں یا جمہوری حکومت کی کسی پالیسی سے عوام بے چین ہوتے ہیں تو دستور ہند کے آرٹیکل ۱۹ کے تحت عوام کو یہ بنیادی و شہری حق حاصل ہے کہ وہ پرامن طریقے سے اپنی آواز و اپنے خیالات کو پیش کرنے کے لئے احتجاج کریں۔ پروٹسٹ یا احتجاج کا بنیادی مقصد حکومت کی کسی پالیسی، قانون یا کسی بھی بیان کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کرنا ہوتا ہے تاکہ عوام کی بے چینی و جذبات کو حکومت یا متعلقہ ادارہ سنجیدگی سے سمجھے اور اپنی پالیسی یا بیان پر نظر ثانی کرے، اگر کوئی پالیسی یا قانون عوام کے جمہوری و دستوری حقوق کے خلاف ہے تو اس میں دوبارہ ترمیم کرے یا واپس لے۔
حالیہ برسوں میں ہونے والے احتجاجات ہماری تاریخ کا کوئی نیا باب نہیں ہیں، موجودہ وقت میں عوام کے ہونے والے احتجاجات ہماری پرانی تاریخ کا ہی حصہ ہیں، ہندوستان چھوڑو تحریک، سول نافرمانی تحریک و ستیہ گرہ تحریکوں کے بغیر ہمارے ملک کا آزاد ہونا ممکن نہیں تھا۔ آزادی سے پہلے ہزاروں احتجاج اور سول نافرمانی کی تحریکوں نے ہی انگریز حکومت کو ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کیا تھا، ہندوستانی عوام کو پرامن احتجاج کی اہمیت اور طاقت کی تعلیم دینے والے بابائے ہند موہن داس کرم چند گاندھی ہی تھے۔ شہری قوانین میں ترمیم کے بعد ہمارے ملک میں ہزاروں احتجاجات ہوئے جس میں لاکھوں شہریوں نے حصہ لیا، اب زراعتی قوانین میں تبدیلیوں کے بعد پھر لاکھوں شہری کئی مہینوں سے سڑکوں پر موجود ہیں جو دستوری حق کا استعمال کرتے ہوئے پرامن انداز میں حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔
ملک کے آزاد ہونے سے پہلے ہمارے ملک میں احتجاج کرنے کا کوئی دستوری یا قانونی حق عوام کے پاس موجود نہیں تھا اس لئے ان تحریکوں کو سخت قوانین و پولیس کاروائیوں کے ذریعے انگریز حکومت خاموش کرنے کی تمام کوششیں کیا کرتی تھی، لیکن ملک کے آزاد ہونے کے بعد ہمارے رہنماوں نے ایک مضبوط جمہوری نظام کو قائم کرنے کے لئے ہی دستور میں آرٹیکل ۱۹ کو شامل کیا جس کا واحد مقصد حکومت کی پالیسیوں پر عوام کو آزادی کے ساتھ اپنے خیالات اور رائے کو پیش کرنے کی آزادی دی، آرٹیکل ۱۹ (۱) (اے) اور (بی) کے مطابق تمام شہریوں کو آزادی خیال اور تقریر کی آزادی ہے اور وہ اپنی بات رکھنے کے لئے پرامن طریقے سے بغیر ہتھیار کے ایک جگہ اکٹھا ہوسکتے ہیں جب کہ آٹیکل ۱۹ کی شق (۲) اور (۳) کے تحت کچھ شرائط و پابندیاں لگائی گئی ہیں جن کے مطابق وہ احتجاج ملک کی خودمختاری و سالمیت کے لئے خطرہ نہ ہوں، پبلک آرڈر یعنی امن و امان، دوست ممالک سے تعلقات، توہین عدالت اور ہتک عزت یا فساد بھڑکانے کی غرض سے نہ ہوں۔ آج احتجاجات کو جمہوریت کے لئے خطرہ کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں، جب کہ کسی بھی جمہوریت کا سب سے قیمتی اثاثہ وہاں کی عوام ہوا کرتی ہیں، اور جمہوریت میں عوام کا سب سے اہم حق ان کا آزادی کے ساتھ آواز اٹھانے کا حق ہے، شرط صرف یہی ہے کہ آواز پرامن انداز سے اٹھائی جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت اپنی پالیسیوں یا غلط اقدامات کے خلاف ہونے والے احتجاجات کو دبانے کے لئے پولیس و قانون کا بے دریغ غلط استعمال کرنے میں بالکل نہیں جھجھکتی ہیں۔ دستور ہند کی آرٹیکل ۵۱ (اے) کے مطابق ہر شہری کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ پبلک پراپرٹی کی حفاظت کرے اور احتجاجات کے دوران تشدد سے پرہیز کرے، لیکن ہم نے شہری قوانین کو لے کر ہونے والے احتجاجات کے دوران پولیس و تحفظاتی ایجنسیوں کے ذریعے ہونے والے پرتشدد ردعمل اور پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچاتے ہوئے جگہ جگہ دیکھا، جامعہ ملیہ کی لائبریری ہو یا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں نیز بہت سی جگہوں پر پبلک پراپرٹی کے ساتھ ساتھ سی سی ٹیوی کیمروں کے ساتھ توڑپھوڑ کے ویڈیو بھی منظرعام پر آئے، لیکن کہیں بھی ان خاطی پولیس والوں کے خلاف کسی بھی طرح کی قانونی کاروائی نہیں کی گئی، آخر کب تک پولیس کی جوابدہی طے نہیں ہوگی؟
بابا رام دیو نے ۲۰۱۲ میں رام للا میدان بلیک منی یعنی کالا دھن کے ایشو کو لے کر احتجاج کیا جس پر پولیس نے کاروائی کی، سیپریم کورٹ نے “رام للا میدان حادثہ بنام ہوم سکریٹری، یونین آف انڈیا و دیگر ۲۰۱۲” کے فیصلے میں کہا کہ “ شہریوں کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ جمع ہوکر پرامن احتجاج کریں جو کہ انتظامیہ یا مقننہ کے کسی بھی غاصبانہ کاروائی کے ذریعے چھینا نہیں جاسکتا ہے”۔ شاہین باغ دھرنے کا معاملہ بھی سیپریم کورٹ میں پہنچا جس کی سنوائی کرتے ہوئے عدالت عظمی نے “امت ساہنی بنام کمشنر آف پولیس” کے فیصلے میں کہا کہ ہر شہری کو پرامن احتجاج کرنے کا دستوری حق حاصل ہے تاہم عوامی جگہوں پر غیر معینہ مدت تک احتجاج کرکے دوسروں کے حقوق کی پامالی نہیں کی جاسکتی ہے، نیز انتظامیہ کو جگہ خالی کرانے کا پورا پورا حق حاصل ہے”۔
احتجاجات کو لے کر عدلیہ کا رویہ بھی سوالوں کے گھیرے میں رہا ہے، اس میں کوئی شک نہیں شہری قوانین میں ترمیمات کرکے مسلم کمیونٹی کے ساتھ قانون میں تفریق برتی گئی تھی جو کہ دستور ہند کی بنیادی روح و ڈھانچہ کے خلاف تھا کیونکہ دستور ہند کا پریمبل یہ وعدہ کرتا ہے کہ کسی کے ساتھ بھی مذہب، نسل، رنگ، ذات پات یا زبان کی بنیاد پر کسی طرح کی تفریق نہیں برتی جائے گی تاہم اس تفریق کے خلاف سیپریم کورٹ میں سو سے زائد پٹیشن زیر التوا ہیں جن پر سنوائی کے دوران نہ تو شہریت کےترمیم شدہ قانون پر کوئی وقتی روک لگائی گئی اور نہ ہی ہزاروں احتجاجات کے بعد بھی اس قانون کے دستوری جواز پر کوئی فیصلہ آیا
عدلیہ، انتظامیہ اور جمہوری حکومت کی یہ دستوری ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے تمام ہی طبقات کے اندر یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کریں کہ یہ ملک سب کا ہے، جہاں دستوری حکومت قائم ہے اور قانون کی نظر میں سب کی حیثیت مساوات پر مبنی ہے تبھی ہم ایک کامیاب جمہوری حکومت بننے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔