تحریر:مولانا عبدالحمید نعمانی
زندگی کا راستہ، جدو جہد اور مخالف طاقتوں سے مزاحمت سے گزر کر منزل تک گیا ہے، ہر میدان میں موجودگی کے بغیر عملی و نظریاتی خلا کو پر نہیں کیا جا سکتا ہے ، اس کے سبب متعلقہ سماج میں مایوسی اور بے سمتی کی حالت طاری رہے گی ، ہمارے یہاں کوئی نیا موثر قائد سامنے نہیں آرہا ہے اور جب کسی کے سامنے آنے کا راستہ ہموار ہوتا نظر آتا ہے تو کچھ مخالف قوتوں کی سرگرمیوں اور زیادہ تر ہماری غفلت و بے اعتنائی کی وجہ سے راستہ مسدود ہو کر رہ جاتا ہے ، اس کے علاوہ معروف و موجود قیادت کی منفی و مکروہ شبیہ ابھارنے کی کوششوں سے تحریک کی ٹھوس زمین ، دلدل میں بدل جاتی ہے جس میں زیادہ زور آزمائی سے آدمی مزید دھنستا چلا جاتا ہے ، جدو جہد کی کامیابی کے لیے اپنی تیار کر دہ زمین اور میدان ہونا چاہیے، اس میں دفاع بھی موثر ہوتا ہے اور اقدام بھی نتیجہ خیز ہوتا ہے۔
سماج دشمن عناصر کی طرف سے جاری سر گرمیوں کے خلاف مختلف سمتوں سے جو کوششیں ہورہی ہیں اور آواز اٹھ رہی ہیں ، ان کو نظر انداز اور نفی کرنے سے سماج میں مایوسی پیدا ہوگی ، ان کی تائید و حمایت ہر میدان کے رجال کار کو اپنے اپنے دائرے میں کام کرنے اور ضروری سوالات اٹھانے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ۔جناب اسد الدین اویسی کے طرز سیاست سے اختلاف کی پوری گنجائش ہے ، تاہم حال کے دنوں میں انھوں نے سنگھ کے متعلق ، تحریک آزادی وطن میں شرکت کے حوالے سے معقول سوال اٹھایا ہے ۔ کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی نے کئی اہم نکات اٹھا کر صورت حال کو ایک صحیح رخ دینے کی کوشش کی ہے ، اگر وہ عام انتخابات کے موقع پر رافیل کے بجائے ہندو تو وادی طاقتوں کے حوالے سے راشٹر واد کو صحیح طریقے سے اٹھاتے تو کچھ مختلف سیاسی و سماجی اثرات مرتب ہو سکتے تھے ، اسی طرح حالیہ دنوں کی اشتعال انگیز تقاریر و بیانات ،مسلم خواتین کی بولی و نیلامی ، مقدس عظیم شخصیات کی توہین ، 80فیصد بنام 20فی صد جیسے امور پر بھی اگر صحیح سمت میں پیش رفت ہوگی تو بہتر اثرات و نتائج مرتب و برآمد ہو سکتے ہیں ، اس سلسلے میں کسی مایوسی اور پس پائی کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ قدرت نے موثر جدو جہد سے نتیجے کو جوڑ دیا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ مطلوبہ اقدامات اور نتائج سامنے نہیں آرہے ہیں تاہم مزاحمت اور ضروری سوالات یقینی طور سے سماج کے سامنے آرہے ہیں ، ان کے تھوڑے بہت اثرات سے انکار حقیقت پسندی نہیں ہے ، جمعیة علما ہند ، جماعت اسلامی ہند ، مشاورت ، جمعیة اہل حدیث ہند، ملی کونسل ، انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹیڈیز ، دارالعلوم دیو بند، خانقاہ رحمانی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ ،امارت شرعیہ اور دیگر تعلیمی ، سماجی ، سیاسی ، اقتصادی اداروں کا کسی نہ کسی نہج و جہت سے کردار ہمارے سامنے آتا رہتا ہے ، ان کی طرف سے جاری کوششوں اور ان کے طرز فکر و عمل سے وابستگی رکھنے والوں کی مزاحمتی و مثبت سر گرمیوں کا نتیجہ ہے کہ فاشسٹ طاقتوں کے خلاف ،کسی نہ کسی سطح پر اقدام کا سلسلہ جاری ہے ، جس طرح بین الاقوامی سطح کی 27تنظیموں نے یتی نرسنہا نند اور دیگر کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے ، اسے انصاف و انسانیت کے تحفظ و فراہمی کے لیے جاری سر گرمیوں سے الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا ہے ، سپریم کورٹ میں دائر استغاثہ اور مقدمات اور سپریم کورٹ کی شنوائی ،کی منظوری اس بات کی علامت ہے کہ بھارت میں فاشزم کا تسلط اور جارحانہ ہندو راشٹر کا قیام بہت آسان نہیں ہے ، ویسے بھی ہندو تو وادی عناصر نے،بھارتیہ سنسکرتی کے گن گان اور نعرے کے ساتھ اقتدار اور طاقت میں آنے کے بعد اپنے قول و فعل سے نہ تو کوئی بہتر نمونہ پیش کیا ہے اور نہ ہی دیس میں سکھ ،شانتی کے ماحول میں ذرا بھی بہتر کردار ادا کیا ہے ۔
ہندوتوا عناصر کی طرف سے مسلم حکمرانوں کی مکردہ شبیہ اور ان کے مبینہ مظالم کو زور شور سے بیان کر کے اکثریت میں اشتعال پیدا کر کے اس کو اپنے ساتھ کرنے اور رکھنے کی برابر کوششیں کی جارہی ہےں، لیکن اس کے بر عکس امن و انصاف کی فراہمی میں ابھی تک پوری طرح ناکام ہیں ، بی،جے پی کی سرکار والی ریاستوں میں کوئی بہتر نمونہ حکمرانی سامنے نہیں آرہا ہے، اس سلسلے میں ماضی قریب کے ایک دو حوالے سے صورت حال کو بہتر طور سے سمجھا جاسکتا ہے، مراٹھوں اور دہلی کے قرب و جوار میں غیر مسلم تفوق والے علاقے میں مسلم اقلیت کی حالت ناگفتہ بہ تھی ، جب کہ اسی وقت روہیلوں کے زیر اثرعلاقے میں مذہبی رواداری کا بہتر نمونہ تاریخ میں درج ہے، روہیلے بے حد تشدد سمجھے جاتے تھے ، لیکن ان میں مذہبی تعصب نام نہ تھا، نجیب الدولہ ہندوؤں کے تہواروں کا خاص خیال رکھتا تھا، بستر مرگ سے اس نے اپنی فوجوں کو حکم دیا کہ گنگا کے میلے میں آنے جانے والے ہندو یاتریوں کی جان مال کی پوری حفاظت کی جائے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں شاہ ولی اللہ کے سیاسی مکتوبات) اس تناظر میں موجودہ حالات کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔
ہندو تو عناصر نے اب تک کی سر گرمیوں ،اقدامات اور کرتوتوں سے اپنی نااہلی، منفی ،جارحانہ فکرو عمل ، نسل پر ستی ، جات پات ،فرقہ پرستی کی راہ ہی ہموار کی ہے ، اس تعلق سے یہ اچھی بات ہے کہ اس کے خلاف، ملک و بیرون ممالک میں ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے سر گرم نظر آتے ہیں ، جن بین الاقوامی سطح کی تنظیموں نے اشتعال انگیزی اور کسی کمیونٹی کو قتل کی دھمکی دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے ، ان میں جہاں یورپ کی انڈین الائنس، فیڈریشن آف انڈین امریکن وغیرہ تنظیمیں ہیں ، وہیں ، ہندو فارہیومن رائٹس ،امریکن دلت فورم جیسی تنظیمیں بھی ہیں ، اس کے باوجود بھی اگر فی الحال کوئی واضح تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے تو اس میں سیاسی پشت پناہی صاف نظر آرہی ہے ، اس صورت حال میں متبادل طریق کار اور حکمت عملیوں پر غور و خوض ہونا چاہیے ، کسی بھی بہتر جدو جہد اور کوشش کا کچھ نہ کچھ تو اثر ہوتا ہی ہے ، اس کی مثال کرناٹک کے تیز طرار بی ، جے پی لیڈر تیجسوی سوریا کے خلاف قومی اقلیتی کمیشن کی طرف سے ، سی جی پی کی درخواست پر کارروائی ہے ، تیجسوی سوریا نے اپنے کچھ رفقاءکے ساتھ ، کورونا کے تناظر میں مسلم اقلیت کے خلاف فرقہ وارانہ ماحول بنانے کی کوشش کی تھی ، جس کے نتیجے میں ،16مسلم کارکنوں کو برخواست کر دیا گیا لیکن ان کی طرف سے جدو جہد اور جانچ کے بعد بحالی ہوگئی ، 200 میں صرف 16 مسلم ناموں کی نشاندہی کر کے فرقہ وارانہ خطوط پر سماج کو تقسیم کر کے سیاسی فائدے کے لیے کام کرنے کا معاملہ بہت صاف ہے ، مودی ، یوگی کی تقسیم کی سیاست اور خود کی بے تحاشا نمائش اور پرچار سے عوام اور ملک کی ترقی اور امن و استحکام کا براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے ،اس سلسلے کی عوامی بیداری تحریکات اور سر گرمیوں کے کچھ نہ کچھ اچھے نتائج یقینا نکلیں گے ، یہ بات پوری طاقت سے کہنے اور عمل سے ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ بھارت جیسے تکثیری سماج اور ملک کے جمہوری نظام میں 80 فیصد بنام 20 فیصد کی فرقہ وارانہ تقسیم کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)