جمہوری سیاست میں اظہار رائے کی آزادی کو نہ صرف اولیت دی گئی ہے بلکہ اختلاف رائے کرنے والوں کو بھی اہمیت دینے کی بات کہی گئی ہے، آزادی کے بعد سے اب تک ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ اختلاف رائے رکھنے والوں کو کبھی دشمن نہیں سمجھا گیا بلکہ پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ کے باہر بھی اگر اپوزیشن کے کسی لیڈر نے کوئی مثبت بات کہی ہے تو صاحبان اقتدار نے اسے ٹھکرایا یا مسترد نہیں کیا بلکہ اسے تحسین کی نظرسے دیکھا گیا اور اہمیت دی گئی مگر اب جمہوری سیاست کا چہرہ یکسر بدل چکا ہے اس کی جگہ آمرانہ روش نے لے لی ہے، چنانچہ اب اگر اپوزیشن کا کوئی لیڈر کچھ کہتا ہے تو اقتدار میں بیٹھے لوگ پہلی فرصت میں نہ صرف اسے مسترد کر دیتے ہیں بلکہ اسے ذاتی حملہ سمجھنے لگتے ہیں۔
پچھلے چھ برس سے جو لوگ اقتدار میں ہیں آئین اور جمہوریت کی قسم وہ بھی کھاتے ہیں ہمارے موجودہ وزیراعظم جب غیر ملکی دورہ پر جاتے ہیں تو جمہوریت کے حوالہ سے ہی اپنی بات رکھتے ہیں اس ضمن میں مہاتماگاندھی کے نظریہ اور ان کے عدم تشدد کے فلسفہ کا حوالہ دینا بھی نہیں بھولتے مگر اندرون ملک ان کا رویہ اس کے قطعی برعکس ہوتا ہے، پچھلے کچھ برسوں کے دوران اس طرح کی سیاست کی گئی اورحکمرانی کا جو نیا نمونہ پیش کیا گیا ہے اس میں آمرانہ روش کا ہی غلبہ رہا ہے ڈر اور خوف کی سیاست کے سہارے مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوا دے کر اکثریت کی صف بندی کا جو خطرناک رویہ اپنایا گیا ہے اس نے آئین کے رہنما اصولوں کو ہی پامال نہیں کیا ہے بلکہ جمہوری قدروں کوبھی بہت اندر تک کھوکھلا کر کے رکھ دیا گیا ہے۔
اکثریت کے غرور میں اپوزیشن پارٹیوں کی اہلیت اور اہمیت کو زیر کرنے کی سازش کا خاکہ بھی آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار تیار ہوا اس کے لئے انتقامی سیاست کا افسوسناک آغاز کیا گیا، اپوزیشن لیڈروں کے خلاف سی بی آئی اور ای ڈی جیسے اداروں کا کھل کر استعمال ہوا ایسے میں بیشتر لوگ نفسیاتی طور پر ڈر گئے اور پھر انہوں نے یا تو اقتدار کے سامنے خود سپردگی کردی یا پھر اپنی زبانیں بند کرلینا ہی مناسب سمجھا، ایسے مایوس کن دورمیں تنہا کانگریس ہی ایسی پارٹی ہے جس نے ڈر اور خوف کی سیاست کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ ہر موقع پر سرکار کے سامنے سوال بھی کھڑے کیے اگرچہ کانگریس لیڈروں کو بھی خوف زدہ کرنے کی نت نئی سازشیں ہوتی رہیں مگر کانگریس کی قیادت کے حوصلوں کو پسپا کرنے میں سرکار ناکام رہی ہے۔