ترجمہ:اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقہ سے نہ کھاؤ( سورۃ البقرة، آیت نمبر 188)
قاسم شاذ فراہی
ایک مدت سے مدارس میں زکوٰۃ کے طریقۂ استعمال کی غلطی پر کچھ مدارس کے لوگوں سے اپنی گفتگو کو بےسود محسوس کرنے کے بعد میں نے ارادہ کیا کہ اس موضوع پر ایک مختصر سی تحریر لکھ کر ہر خاص و عام تک پہنچاؤں تاکہ لوگوں کو حقیقت حال سے آگاہی ہو سکے اور لوگ اس بھیانک بیماری کا سد باب کرنے کے لیے کمر بستہ ہوں اور اصلاح کے ذریعہ سے ان لوگوں کو آخرت کی جواب دہی سے بچایا جا سکے جو انجانے میں اس خرابی میں مبتلا ہیں اور دوسری طرف مستحقین تک ان کے حقوق کے پہنچنے کی راہیں ہموار ہوسکیں ۔
ہمارے دینی مدارس کی ابتدا جس دور میں ہوئی اس وقت ممکن ہے مدارس کو چلانے کے لیے مال کی فراہمی کا یہی ایک واحد راستہ رہا ہو جسے ہمارے بزرگوں نے چار وناچار اختیار کیا ہو لیکن دور حاضر میں اسی قدیم طریقہ پر مدارس کو چلانا خیانت کے مترادف ہے جس سے اجتناب نہایت ضروری ہے اس لیے سب سے پہلے میں وہ طریقہ بتانا چاہتا ہوں جو مدارس کو چلانے کے لیے موزوں ہے اور اس کے بعد موجودہ سسٹم کی خرابیوں پر روشنی ڈالوں گا۔
ہمارے مدارس میں پڑھنے والے طلبہ یا تو مستحق زکوٰۃ ہوں گے یا نہیں ہونگے۔
اب ہم اپنے سالانہ خرچ پر مزید پندرہ سے بیس فیصد کا اضافہ کر کے اپنا سالانہ بجٹ بنا لیں، اساتذہ کی مناسب تنخواہ کو سامنے رکھ کر ہی بجٹ بنائیں اور تمام طلبہ پر اسے تقسیم کر کے دیکھیں کہ ایک طالب علم پر ماہانہ کتنا خرچ آتا ہے، پھر اسے اس طرح ایڈجسٹ کریں کہ کلاس کے حساب سے نچلی کلاس میں کتنی فیس مناسب ہوگی اور اوپر کے درجات کے لیے کیا فیس مناسب ہوگی، اسے طے کرکے جاری کردیں۔
اگلا مرحلہ فیس وصولی کا ہے ،اس سلسلہ میں یہ لائحۂ عمل طے کیا جائے کہ جو بچے پوری فیس جمع کر سکتے ہیں جمع کریں اور جن کی مالی حالت کمزور ہے ان کے لیے فارم کے اندر کالم ہو کہ کتنی فیس معاف کروانا چاہتے ہیں 25 فیصد 50 فیصد 75فیصد یا 100 فیصد، اسی طرح بس کا کرایہ، کتاب، کاپی اور ڈریس وغیرہ کی فراہمی کا کالم بھی ہو ،تاکہ جو جتنے کا مستحق ہو اس کو اس کی ضرورت کے بقدر مدد فراہم کی جا سکے اور یہ تمام فیس مدرسے کا بیت المال اپنی موصولہ زکوٰۃ میں سے خرچ کرے۔
مدارس کے ذمہ داروں کا یہ اندیشہ کہ یکایک فیس کے بوجھ سے لوگ گھبرا جائیں گے، تو ایسا بالکل نہیں ہے، بلکہ جب ان کو تمام تفصیلات بتائی جائیں گی تو اس نئی اسکیم سے انہیں خوشی ہوگی، ان کو یہ بات بہ آسانی اور اچھی طرح سمجھائی جا سکتی ہے کہ چونکہ جن حالات میں مدارس کا قیام ہوا اس وقت اس طرح سے مدارس کو چلانا بزرگوں نے بہتر سمجھا اور اب تک وہ طریقہ قایم رہا لیکن اب حالات بہت بدل چکے ہیں، سماج میں مالی بہتری آئی ہے، اس لیے صاحب ثروت اور صاحب استطاعت افراد کے بچوں کو زکوٰۃ کی مد سے تعلیم دینا غیر مناسب عمل ہے اور صاحب استطاعت کے لیے زکوٰۃ کے پیسے سے اپنے بچوں کو تعلیم دلانا بھی اچھا نہیں، ان حالات میں یہ معاملہ کس طرح درست ہو سکتا ہے جبکہ مستحقین زکوٰۃ تک زکوٰۃ کا فیض کما حقہ نہیں پہنچ رہا ہے، ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے وقت اور حالات کی ضرورت کے حساب سے نظام میں تبدیلی کی گئی ہے جو کہ ضروری تھی اور اس عمل سے ہم کلی طور پر مطمئن بھی ہو جائیں گے کہ ہم نے موصولہ مال جہاں خرچ کیا ہے اس کی بنیاد پر آخرت میں اس سلسلہ میں ہماری گلو خلاصی ممکن ہو سکے گی۔
لیکن اگر کوئی صاحب استطاعت یہ کہتا ہے کہ میں فیس دے کر بچے کو نہیں پڑھا ؤں گا آپ اگر مفت میں پڑھا سکتے ہیں تو ٹھیک ہےتو پھر ایسے بچوں کے لیے ہر حال میں مدارس کا دروازہ کھلا ہونا چاہیے کہ اگر باپ اپنی ذمہ داری نہیں نبھاتا تو سماج نبھائے اور وہ بچہ دینی تعلیم کے بنیادی حق سے محروم نہ رہے۔
تبدیلی کے ان مراحل میں کام کی زیادتی کی وجہ سے مدارس کی انتظامیہ کو ایک عرصہ تک بہت متحرک رہنا پڑ سکتا ہے مگر اس کے بعد مدارس کے ذمہ دار، اساتذہ اور طلبہ حتی کہ پورا مسلم سماج جس ذہنی آسودگی سے ہم کنار ہو گا اُس کا تصور بھی اِس وقت ممکن نہیں۔
اب موجودہ حالات میں مدارس کے اندر زکوٰۃ کے استعمال کے جو طریقے رائج ہیں ان کا ایک سرسری جائزہ لے کر دیکھ لیتے ہیں کہ وہ قابل عمل ہیں یا انہیں ترک کر دینا ہی اطمینان کا باعث ہوگا۔
ہم اپنے معاشرے میں کچھ ایسے مدارس پاتے ہیں جو فی سبیل اللہ کی مد میں زکوٰۃ کو دینی تعلیم کے فروغ پر خرچ کرتے ہیں ،آسان لفظوں میں یوں سمجھیں کہ اساتذہ کی تنخواہ زکوٰۃ سے ادا کرتے ہیں اس کے علاوہ مستحقین زکوٰۃ طلبہ کی فیس خوراک ادا کرنے اور ان کی دیگر ضروریات کی فراہمی پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرتے ہیں اور ان کے یہاں شورائی نظام کے تحت ہی مدرسے کا نظام چلتا ہے،حساب مکمل شفاف ہوتا ہے اور اس کی جانچ کے لئے انتظامیہ سے الگ باہر کے کچھ لوگ ہفتہ میں ایک یا دو دن آکر سارا حساب چیک کرتے ہیں اور کوئی بھی آدمی وقت لے کر جاکرحساب دیکھ سکتا ہے، اِن تمام خوبیوں کے باوجود اُن کے نظام میں یہ عیب ضرور ہے کہ ہر بچے پر تعلیمی خرچ کا جو حصہ آتا ہے وہ یا تو مکمل زکوٰۃ فنڈ سے ادا کیا جاتا ہے یا اگر وہ بچوں سے فیس لیتے بھی ہیں تو اتنی کم لیتے ہیں کہ صاحب استطاعت بچوں پر ہونے والے خرچ کا کچھ حصہ زکوٰۃ فنڈ سے جاتا ہے حالانکہ ان کے والدین خود زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور کچھ صاحب ثروت تو ایسے بھی ہیں جو بہت سے غریب بچوں کی کفالت کر رہے ہوتے ہیں اور غیر محسوس طریقہ سے ان کا اپنا بچہ بھی زکوٰۃ کی رقم سے دی جانے والی تعلیم سے اپنا حصہ کشید کر رہا ہوتا ہے اور اس نظام کی اصلاح بہت ضروری ہے۔
دوسرے وہ مدارس ہیں جو زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے تملیک (یعنی کسی کو زکوٰۃ کی مد میں ملی ہوئی رقم کا مالک بنانا) کو شرط مانتے ہیں اور بغیر تملیک کے مدارس کے اندر زکوٰۃ کی رقم کے استعمال کی اجازت نہیں دیتے (( طوالت سے بچنے کے لئے میں تملیک پر بحث نہیں کروں گا اس لیے جو لوگ تملیک کے بارے میں جاننا چاہتے ہوں وہ گوگل پر مسئلہ تملیک لکھ کر سرچ کرکے کافی معلوماتی مضامین حاصل کر سکتے ہیں )) اس لیے زکوٰۃ کو اپنے حق میں قابل استعمال بنانے کے لیے تملیک کے حیلہ کا سہارا لیتے ہیں اور یہ حیلہ کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے بلکہ یہ ایک خود ساختہ قانون ہے جسے روبہ عمل لا کر اہل علم کے ایک طبقہ نے بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے، تملیک کا حیلہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کی جو رقم وصول ہوکر مدارس میں پہنچتی ہے اس کو کسی نادار شخص یا طالب علم کو بلا کر یہ سمجھا کر دے دیا جاتا ہے کہ یہ مدرسہ اتنا مقروض ہے یا یہ کام ہے یا مدرسے کا اتنا سالانہ خرچ ہے یا یہ پروجیکٹ ہے جس میں اتنے پیسے کی ضرورت ہے، اب یہ رقم آپ کو دی جارہی ہے جس کو آپ اس مد میں خرچ کر کے اس ذمہ داری کو نبھا دیجیئے وغیرہ وغیرہ، اب وہ رقم ان کے خیال میں تملیک کے حیلہ کے بعد اس قابل بن جاتی ہے کہ مدرسہ کے جملہ ضروریات میں کہیں بھی استعمال ہوسکتی ہے اور ہوتی بھی ہے، اس طرز کے مدارس میں عموماً مہتمم/ناظم کی شخصیت سے لوگ کچھ زیادہ ہی مرعوب ہو جاتے ہیں اور کسی بھی طرح کے سوال کرنے کو مہتمم کی بے حرمتی سمجھتے ہیں، اسی احترام اور تقدس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض مہتمم حضرات اس عوامی مدرسہ کو شخصی اور خاندانی مدرسہ میں تبدیل کر لیتے ہیں اور اب یہ عوام کے زر تعاون سے قایم ہوکر چلنے والا مدرسہ کہنے کو عوامی مدرسہ ضرور رہتا ہے لیکن نتیجہ کے اعتبار سے اب یہ موروثی ملکیت میں تبدیل ہو چکا ہوتا ہے (الا ماشاءاللہ )،ایسے مدارس میں مہتمم حضرات اپنے موافق کچھ لوگوں کو شوریٰ یا انتظامیہ کا رکن بنا لیتے ہیں جو ربر اسٹامپ کی طرح استعمال ہوتے رہتے ہیں جن کو سفید و سیاہ کی کچھ تمیز نہیں ہوتی، اب مہتمم یا ناظم جو کہ تمام سفید و سیاہ کا مالک ہے وہ جو چاہے کرے اس سے کوئی سوال کرنے والا نہیں ہوتا چاہے ان پیسوں سے وہ خود کو بہت بڑا تاجر بنا لے، بڑی بڑی گاڑیوں سے چلے، جہاں جائے مریدین وخدام کی نفری ساتھ ہو جس سے حضرت کی شخصیت کا رعب لوگوں میں بیٹھ جائے اور حضرت کی جو مرضی ہو وہ کریں، جب جسے چاہیں مدرسہ میں رکھ لیں، جسے جب چاہیں نکال باہر کریں، یہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں عوام الناس کے مشاہدات کا حصہ ہے، مگر تمام ہی مہتمم ایسے نہیں ہوتے بلکہ بعض سلیم الطبع مہتمم تو اپنی پوری زندگی مدرسہ کی فلاح و بہبود پر لگا دیتے ہیں اور چندہ کی رقم سے بقدر شرعی اجازت اورضرورت ہی اپنے اور اپنے خاندان پر خرچ کرتے ہیں ۔
ان مدارس میں جب کوئی شخص خود کو مہتمم کے مد مقابل سمجھنے لگتا ہے تو نتیجہ کے طور پر یا تو اسے خود مدرسہ چھوڑنا پڑتا ہے یا پھر کسی الزام کی بنیاد پر اسے نکال دیا جاتا ہے اور پھر وہ اپنے لیے نئی زمین تلاش کرتا ہے اور رسید چھپوا کر خود سفید وسیاہ کا مالک بن جاتا ہے۔
ان مدارس میں عموماً اساتذہ و خدام کو اپنا ضمیر بیچ کر یا حالات سے سمجھوتا کرتے ہوئے مجبورا مہتمم صاحب کی چاپلوسی کرنی پڑتی ہے ان کی ہر ہاں میں ہاں ملانی پڑتی ہے،اب تو بہت سارے علما یہ شکایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور بعض علما نے اس کے خلاف تحریریں بھی لکھی ہیں کہ بعض مدارس کے ذمہ داروں نے تمام زمینیں اپنے نام سے خریدی ہیں جو کہ قومی زکوٰۃ کے پیسے سے بلاواسطہ یا حیلۂ تملیک کے ذریعہ خریدی گئی ہیں ، اس طرح قوم کے دیے ہوئے زکوٰۃ فنڈسے قایم یا زکوٰۃ سے چلنے والے یہ مدارس پشتینی ملکیت کی طرح استعمال کیے جا رہے ہیں، ان مدارس کو شخصی ملکیت سے نکال کر قومی ملکیت میں تبدیل کر کے مضبوط شوریٰ یا انتظامیہ کے ذریعہ چلانا ضروری ہے تاکہ پائی پائی کا درست حساب ہمہ وقت لیا جا سکے اور اساتذہ اور تمام خدام مدرسہ اپنے آزادضمیر اور عزت کے ساتھ مناسب تنخواہ پر مدرسہ میں اپنی خدمات انجام دے سکیں، ان کے سروں پر سے وہ لٹکتی ہوئی تلوار بھی ہٹ جائے کہ اگر چاپلوسی نہیں کی تو کسی بھی وقت بوریا بستر بندھ سکتا ہے۔
ان تمام امور پر عوام و خواص کو سوچنا ہوگا کہ اگر یہ سب کچھ خدا کی مرضی کے مطابق ہے تو اسی طرح سے چلتے رہنے دینا چاہیے اور اگر یہ سب کچھ منشائے ربانی کے خلاف ہو رہا ہے تو ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں جن کو نہ نبھا پانے کی صورت میں ہم سے محاسبہ ہو سکتا ہے۔
اب رہی یہ بات کہ حیلہ کیا ہے اور اس کے جواز کے لیے کوئی ثبوت ہے بھی یا نہیں، قرانی تاریخ کے حوالے سے ہم تک یہ بات پہنچ چکی ہے کہ سبت کے معاملے میں بنی اسرائیل نے حیلے کا سہارا لیا اور اس وجہ سے ان پر اللہ کا عتاب نازل ہوا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں حلالہ کے حیلہ کے امکانات پر سرزنش کرتے ہوئے سخت وعید سنائی اور حلالہ کرنے والے کو کرائے کا سانڈ بتایا ان تنبیہات کے باوجود ہمارے یہاں اب تک یہ دھندا چل رہا ہے جبکہ علما کی کثیر تعداد اس کے خلاف آواز اٹھاتی رہتی ہے اس دھندے میں بعض نکاح خواں "حلالہ مولوی” کے نام سے مشہور ہیں لیکن یہ "حیلۂ تملیک” بعد کی پیداوار ہے اس لیے علما کی اقلیت تو اسے حرام سمجھتی ہے لیکن اکثریت نے ناپسندیدہ کہہ کر بعض شرائط کے ساتھ اس کے جواز کا فتوی دے رکھا ہے کہ اس طرح سے حیلہ کیا جائے تو مباح ہوگا، اس طرح کیا جائے تو مکروہ ہوگا اور اگر اس طرح کیا گیا تو ناجائز ہوگا وغیرہ، اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ یہ ان کی اپنی دکانداری ہے ورنہ حلال چیزوں کی حرمت کا فتویٰ دینے والے ناجائز کو حلال کیسے کہتے، ان تفصیلات سے یہ ثابت ہوا کہ بنی اسرائیل ایک حیلے کا ارتکاب کر کے خدا کے غضب کے مستحق ٹھہرے اور ہم نے دو حیلوں کے ذریعہ اپنی مراد حاصل کی اور شکایت یہ ہے کہ خدا کفار ومشرکین کے ساتھ کھڑا ہے۔
اس لیے سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک ناجائز چیز کے کئی طریقے بتا کر اس میں سے ایک طریقہ جواز کا اپنے لیے نکال لینا قطعی نادرست ہے۔
حیلۂ سبت، حیلۂ حلالہ اور حیلۂ تملیک سب ایک طرح کی چیزیں ہیں اور ان میں سے کسی کے بھی جواز کا فتوی صادر کرنے والےیا اپنے علم اور اپنی عقل کو بالائے طاق رکھ کر اس طرح کے غلط فتویٰ کا سہارا لے کر ناجائز طریقے سے لوگوں کے حقوق کھانے والوں کو اپنی آخرت کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے۔