نیرج جھا
بہار قانون ساز کونسل کی 12 نشستوں میں سے ، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو) نے آپس میں ہی چھ چھ سیٹیں تقسیم کرلیں۔ وزیر اعلی نتیش کمار کی سربراہی میں ہوئی اس نامزدگی کے بعد سے ہی این ڈی اے میں کافی تنازعات کھڑے ہوئے ہیں۔ نتیش کابینہ میں وزیر مکیش ساہنی کی سربراہی میں وکاس شیل انسان پارٹی (وی آئی پی) اور ہندوستانی عوام مورچہ (ایچ اے ایم) نے اس پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اس نامزدگی کے بعد ریاست کے سابق وزیر اعلی جیتن رام مانجھی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ایک بڑا فیصلہ لینا پڑے گا۔ وی آئی پی اور ایچ اے ایم نے قیادت سے سوال کرتے ہوئے کہا ہے کہ گٹھ بندھن دھرم کی پیروی نہیں کی گئی ہے۔ جس کے بعد ، بہار کی سیاست نے ایک بار پھر گرمانا شروع کردیا ہے۔ راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے رہنما اور مہاگٹھ بندھن کا چہرہ تیجسوی یادو خود کو این ڈی اے کے تنازعہ میں فائدہ دیکھ رہے ہیں۔
آر جے ڈی اس بات کا دعوی پہلے ہی کرچکی ہے کہ ہولی یا بنگال انتخابات کی تکمیل کے ساتھ ہی بہار کی سیاست میں کچھ بڑا ہونے والا ہے۔ذرائع کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ، آر جے ڈی کے ترجمان موتھنجے تیواری نے بھی کہا کہ اقتدار میں تبدیلی آئے گی۔ این ڈی اے کی حکومت اندرونی دشمنی اور تنازعات کی وجہ سے گرے گی۔ اگر یہ جھگڑا بڑھتا ہے اور معاملہ ختم ہوجاتا ہے تو ، کیا مانجھی اور ساہنی آر جے ڈی کے لئےکنگ میکر ثابت ہوں گے؟ حالانکہ دونوں جماعتیں اس بات سے انکار کر رہی ہیں۔ لیکن ، سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے۔
بہار قانون ساز اسمبلی کے موجودہ توازن کو دیکھیں تو کل243 سیٹوں میں آر جے ڈی کی زیرقیادت مہاگٹھ بندھن کے پاس 110 ایم ایل اے ہیں ۔ وہیں نتیش کی زیرقیادت این ڈی اے کے پاس 125 ایم ایل اے ہیں۔ اکثریت یعنی سرکار بنانےکے لئے کسی بھی پارٹی کو 122 نشستیں درکار ہوتی ہیں۔ یعنی آر جے ڈی اکثریت سے 12 سیٹیں پیچھے ہے۔ اس وقت ایوان میں مانجھی اور ساہنی کے چار ایم ایل اے ہیں۔ انتخابات میں حیدرآباد سے ایم پی اسد الدین اویسی کی زیرقیادت پارٹی آل انڈیا مجلس اتحاد اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) نے سیمانچل سے پانچ نشستیں جیت کر اپنے قد کو بڑھایا ہے۔ نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے آر جے ڈی کے ترجمان تیواری کہتے ہیں ، اکثریت سے ہم کچھ سیٹ پیچھے رہے ہیں۔ اگر یہ تینوں آر جے ڈی کی حمایت کرتے ہیں اور ریاست کی ترقی میں حصہ لیتے ہیں تو ہم حکومت بنانے کے اہل ہیں۔
حالانکہ مانجھی اور ساہنی کی ابھی این ڈی اے سے بغاوت کرنے کو لے کر سینئر صحافی مانیکانت ٹھاکر کی مختلف رائے ہے۔وہ کہتے ہیں” بی جے پی قومی سطح پر سب سے مضبوط پارٹی ہے۔ اگر یہ دو نوںچھوٹی جماعتیں بغاوت کرتے ہیں تو ماضی میں مانجھی اور ساہنی کو ہی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ مرکزی تفتیشی ایجنسیاں ان کے پیچھے پڑسکتی ہیں۔ وہیں اویسی مرکزی سطح پر وہ خود کو سیاست کے لئے تیار کررہے ہیں۔ اگر انہیں ماضی کی سیاست کو لے کرکچھ فائدہ نظرآئے گا تبھی وہ ساتھ آئیں گے۔