یوگی سرکار جب سے اقتدار میں آئی ہے اترپردیش میں فرقہ واریت اور انتقام کی سیاست کو زبردست بڑھاوا ملا ہے، جس ایجنڈے پر مرکز کی مودی سرکار پچھلے چھ برس سے کام کر رہی ہے، یوگی سرکار بھی اسی ایجنڈے پر منصوبہ بند طریقہ سے چل رہی ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ اس معاملہ میں وہ مودی سرکارسے بھی دو قدم آگے ہے، اکثریت کو خوش کرنے کی پالیسی کے تحت اب اقلیتی طبقہ کو چن چن کرنشانہ بنایا جا رہا ہے، پولس کو اس بات کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے کہ وہ ہر معاملہ میں انصاف اور قانون کو بالائے طاق رکھ کر اقلیتی طبقہ کو اپنی بربریت کا شکار بنائے اور انہیں سخت دفعات کے تحت اٹھا اٹھاکر جیلوں میں ڈھونستی رہے۔ حال ہی میں انگریزی کے مشہور و معروف اخبار انڈین ایکسپریس نے جلی سرخی کے ساتھ ایک ایسی تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس نے یوگی سرکارکی مسلم دشمنی کا نہ صرف پردہ فاش کر دیا ہے بلکہ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جمہوری طریقہ سے چنی ہوئی ایک سرکار کس طرح غیر جمہوری طریقہ سے کام کر کے آئین وقانون کی کھلے عام دھجیاں اڑا رہی ہے۔
جیسا کہ سب کے علم میں ہے کہ اترپردیش میں گئو کشی پر نہ صرف مکمل پابندی ہے بلکہ اقتدار میں آنے کے بعد یوگی سرکار نے اس کی روک تھام کے لئے جو قانون پہلے سے موجود تھا اس میں ترمیم کرکے اسے مزید سخت بنا دیا ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے سخت قانون کی موجودگی کے باوجود گئو کشی کے الزام میں جو لوگ پکڑے جاتے ہیں پولس ان پر دھڑلے سے این ایس اے لگا رہی ہے، انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق 2020 اگست ماہ تک گئو کشی کے کل 1716 معاملے درج ہوئے جن میں چارہزار سے زائد لوگوں کو تو گئوکشی روک تھام قانون کے تحت گرفتارکیا گیا ہے جب کہ 2384 کے خلاف اترپردیش گینگیسٹر ایکٹ کے تحت کارروائی ہوئی ہے اور 1742 لوگوں پر غنڈہ ایکٹ لگادیا گیا ہے۔
اخبارکی رپورٹ کے مطابق 19اگست تک اترپردیش میں کل 139 افراد پر این ایس اے لگایا گیا ہے جن میں 76 وہ لوگ شامل ہیں جن پر گئوکشی کا الزام ہے گویا انہیں بھی قومی سلامتی کے لئے خطرہ سمجھ لیا گیا اور ان کے خلاف این ایس اے لگانا ضروری ہوگیا، قابل ذکر ہے کہ این ایس سی ایک ایسا قانون ہے کہ اگر اس کے تحت کسی کی گرفتاری ہوتی ہے تو اس کو کسی جرم کے بغیر بھی ایک سال تک حراست میں رکھا جاسکتا ہے لیکن اس کا نفاذ تب ہی ہوسکتا ہے جب انتظامیہ کسی شخص کو قومی سلامتی اور امن وقانون کے لئے ایک خطرہ تصورکرے اترپردیش میں گئوکشی پر مکمل پابندی ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص گئوکشی کرتا ہے تویہ ایک جرم ہے اور اس جرم کے لئے الگ سے ایک سخت قانون موجود ہے ایسے میں یہ بنیادی سوال بہت اہم ہے کہ ایسے لوگوں پر آخر این ایس اے کیوں لگایا گیا؟
اترپردیش کے ایڈیشنل چیف سکریٹری برائے داخلہ اونیش کمار اوستھی دلیل دیتے ہیں کہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ ہدایت دے رکھی ہے کہ ایسے مجرمانہ معاملوں میں جن سے امن عامہ کو خطرہ ہو، این ایس اے کے تحت کارروائی کی جائے تاکہ مجرموں میں خوف پیدا ہو اور عام شہریوں میں تحفظ کا احساس جاں گزیں ہو، مگر سچائی اس سے ایک دم الٹ ہے ان تمام تر اقدامات کے باوجود جو واقعی جرائم پیشہ عناصر ہیں آزاد ہیں، قتل اورعصمت دری کے واقعات روزکا معمول بن چکے ہیں ریاست جرائم کی آماجگاہ بن چکی ہے۔ عام شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس اس قدرشدید ہوچکا ہے کہ لوگ گھروں سے نکلتے ہوئے بھی ڈر رہے ہیں، معصوم بچیوں کو جس طرح درندگی کا شکار بنایا جا رہا ہے اس سے والدین کی آنکھوں سے نیندیں چھن چکی ہیں دوسرے شہروں اور قصبات کو تو چھوڑیئے راجدھانی لکھنو میں سرکار کی ناک کے نیچے جرائم پیشہ عناصر خاموشی سے آتے ہیں اور اپنا کام کرکے صاف نکل جاتے ہیں۔