تحریر:مولانا عبد الحمید نعمانی
قومی ملی سیاست میں با عزت زندگی کے لیے راستے طے کرنے اور مختلف امور میں انتخاب بڑا مسئلہ اور فیصلہ کن گھڑی ہوتی ہے ۔ تاریخ زہر کا پیالہ اور امرت دونوں کا مجموعہ ہوتی ہے ، غلطیوں سے سبق لیتے اور ان سے بچتے ہوئے بہتر حال اور اچھے مستقبل کے پیش نظر طریقہ کار طے کرنا دانش مندی کا تقاضا اور وقت کی ضرورت ہے ۔ یہ تو طے ہے کہ اب بھارت میں مسلم لیگ کے طرز پر صرف مسلمانوں اور ملت کے نام پر جداگانہ سیاست کے لیے کوئی جگہ نہیں رہ گئی ہے ، اگر ایسا نہیں ہے تو اس کے حوالے سے زیادہ باتوں کا کوئی معنی و مطلب بھی نہیں ہے ، گزرتے دنوں کے ساتھ سیکولر کہی جانے والی پارٹیوں نے مسلمانوں (اور آدی واسیوں،دلتوںوغیرہ)کی ان دیکھی کر کے ملک کی اکثریت کی نظروں میں منظور و محبوب بننے کی کوششیں شروع کر دی ہیں، ان کے پیش نظر اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ قیادت و نمائندگی کے مسئلے پر خصوصی توجہ دی جائے، گزشتہ دنوں 12 سے 14نومبر2021 تک بہار کی راجدھانی پٹنہ اور پھلواری شریف میں آل انڈیا ملی کونسل کے سالانہ اجلاس میں ملک و ملت کے جو مختلف مسائل وامور پر تفصیلی اظہار خیالات کے ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے اہم تجاویز پیش ہو کر منظور ہوئیں،ان سے کئی موجودہ مسائل پر غور وفکر کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔8 اگست 2021 کو دہلی میں ، جس طور سے ملک کی تمام معروف تنظیموں اور موقر شخصیات کی طرف سے ملی اتحاد کی ضرورتوں اور وقت کے تقاضوں کے تناظر میں متفقہ موقف سامنے آیا تھا،اس کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے دیگرمشترکہ مقاصد و مسائل زیر جدو جہد لانے کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے اس پر ملی کونسل کے سالانہ اجلاس میں بھی توجہ و زور دیکھنے میں آیا۔ ہمیں وقتی کام کے بجائے کچھ امور پر تسلسل کے ساتھ کام کرنے اور جدو جہد کرنی ہوگی،ماہ دسمبر2021 میں ہی مشاورت کی ورکنگ کمیٹی کے دہلی اجلاس اور جمعیة علما ہند کے کلکتہ اجلاس کی تجاویز اور فیصلوں کو سامنے رکھتے ہوئے آگے کے لیے متحدہ قدم اٹھانا ملک وملت کے حق میں بہتراور مفید ہی ہوگا ۔
مولانا خلیل الرحمنٰ سجا دنعمانی بھی اگست 2021 سے ملی اتحاد پروگرام کا حصہ رہے ہیں ، انھوں نے دیگر مواقع کے علاوہ ماہنامہ الفرقان بابت ماہ دسمبر2021 کے اداریے میں جس آزاد اور اصولی سوچ والی سیاسی پارٹی کی تشکیل کی بات کہی ہے ۔ اس کی بھی متحدہ کوشش و عمل ہی سے تشکیل ہو سکتی ہے۔اتنا بڑا فیصلہ ،کچھ لوگوں کی انفرادی رائے وکوشش سے نتیجہ خیز اورثمر آور نہیں ہو سکتا ہے ۔ کچھ برسوں پہلے ،جمعیة علما ہند نے مولانا اسعد مدنیؒ کی سربراہی میں حالات کو دیکھتے ہوئے سیکولر اقدار و روایات اور مشترکہ مقاصد و مسائل کو لے کر ایک سیاسی پارٹی کی تشکیل کی ضرورت پر توجہ مبذول کرائی تھی، لیکن کچھ وجوہ سے بات آگے نہیں بڑھ سکی، جس کام میں انصاف اور مسئلے کا حل نظر نہ آنے اس سے دوسروں کو جوڑنے اور سمجھانے کا عمل انتہائی مشکل ہوجاتا ہے ۔ مبینہ سیکولر پارٹیوں کی طرف سے کام اور باتوں کی باتیں بہت ہوئیں لیکن ان میں انصاف ،باعزت نمائندگی اور مسئلے کا حل نظر نہ آنے کے سبب کئی طرح کے مسائل پیدا بھی ہوئے اور مشکلات کا سامنا بھی، جمہوری نظام حکومت اور انتخابی سسٹم میں کسی بھی قابل ذکر اور موثر کمیونٹی اور اکائی کو نظر انداز کر کے جمہوری اور انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا جاسکتا ہے آزادی اور تقسیم وطن کے ساتھ ہی آزاد بھارت کا منظر نامہ پوری طرح بدل جا چکا ہے ۔ ایسی حالت میں کیا طریقہ کار اقلیتوں اور محروم و پس ماندہ طبقات کے لیے ہونا چاہیے ،اس پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا، اس سلسلے میں تذبذب،مبہم اورذو معنی باتیں کرنے سے کام نہیں چلے گا،اس سے مخاطب کو راستہ اور رائے قائم کرنے میں کئی طرح کی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بسا اوقات وہ انتشار و تذبذب میں مبتلا ہوکر مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں دو طرح کی تحریریں اور باتیں سامنے آرہی ہیں ، جن میں ملک کے نظام حکومت اور انتخابی طریق کار اور ان کے نتیجے میں پیدا شدہ حالات زیر بحث ہوتے ہیں ، اس کی بڑی حد تک نمائندگی ماہنامہ زندگی نو اور الفرقان میں شائع امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی اورمولانا خلیل الرحمن سجا د کی تحریریں کرتی ہیں ، جناب حسینی کی تحریر میں نقطہ نظر اور تنقید و تبصرہ کے ساتھ راستے ،منزل اور ضروری نکات کی متعین و واضح نشاندہی کی گئی ہے ، لیکن مولانا سجاد نعمانی کی تحریر میں راہ عمل کا واضح تعین اور ملک کے جمہوری نظام اور تکثیری سماج میں ایسی متناسب نمائندگی کی رہ نمائی نہیں ملتی ہے ۔ جس کی موجودگی میں ایک آزاد جمہوری ملک میں کسی گروہ، چاہے وہ اکثریت میں ہی کیوں نہ ہو کو دوسرے طبقات و گروہوں پر بالادستی قائم کرنے کا موقع نہ ملے ، اس سمت میں ایک نقشہ کار بناکر، متحدہ قومیت کے تصور کے تحت مولانا انور شاہ کشمیریؒ، مولانا آزادؒ، مولانا مدنی ؒ اور ان کے ہم خیال اکابر نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تھی ،لیکن بد قسمتی سے ملک کی تقسیم کے بعد بنایا نقشہ کار باقی نہیں رہ سکا،سابقہ نقشہ کار میں ابو المحاسن ،مولانا محمد سجاد بہاریؒ کے اس فارمولے کی پوری گنجائش تھی کہ کسی غیر مسلم پارٹی کے ٹکٹ پر مکمل سمجھوتا اور اطمینان کے بغیر مسلمان امیدوار الیکشن نہ لڑے ،کیوں کہ ایسی حالت میں امیدوار عموماً اپنے قومی و مذہبی مسائل کے لیے پارٹی مفادات کے سامنے مجبور رہے گا۔
مولانا سید محمد سجاد بہاریؒ کا سیاسی و وطنی نظریہ اور مسلمانوں کے سلسلے میں دینی و سماجی موقف کے تعلق سے پوری نہیں تو بڑی حد تک ضرورت بھر باتیں ہمارے سامنے مختلف شکلوں میں آچکی ہیں۔
ان کے حوالے سے یہ کہنا حقیقت پر مبنی نہیں ہے کہ پوری مسلم قوم کا کانگریس میں ضم کر دینے کے جمعیة علما ہند کے موقف سے مولانا محمد سجاد ؒ شدید اختلاف رکھتے تھے ، وہ جمعیة علما ہند کے بنیادی ارکان و رہ نماؤں میں سے ہونے کے ساتھ اس کی پالیسی سازی میں ان کا اہم کردار رہا ہے ، اولاً تو یہی بات خلاف حقیقت ہے کہ جمعیة علما ہند کا موقف پوری مسلم قوم کو کانگریس میں ضم کردینے کا تھا ، اس تناظر میں یہ دعوی مبنی پر دلیل نہیں رہ جاتا ہے کہ مولانا سجاد،ؒ جمعیة علما ہند کے موقف سے شدید اختلاف رکھتے تھے ، جمعیة علماءہند کی تاریخ اور اس کے مطبوعہ ،غیر مطبوعہ ریکارڈ میں اس طرح کی باتوں کا کوئی ذکر و حوالہ نہیں ہے ، اختلاف و اتفاق کو جمعیة علماہند اور اس کے دیگر رہ نماؤں ،سمیت مولانا مدنی ؒ ،امارت شرعیہ اور اس کے دیگر کلیدی عہدے داروں سمیت ابو المحاسن محمد سجادؒ کے درمیان اشتراک و اتحاد تھا ،اس تناظر میں تنظیم اور اس کے اکابر کو ایک دوسرے سے الگ دکھانے کی کوشش کوئی راست رویہ نہیں کہا جاسکتا ہے ۔
البتہ مولانا محمد منظور نعمانی ؒ لیگ اور کانگریس ،جمعیة علما ہند میں سے کسی کے موقف و نقطہ نظر کے ساتھ پوری طرح کھڑے اور متفق نہیں تھے ۔ اس کی تصویب و تائید کے لیے مولانا محمد سجاد ؒ کے حوالے سے بحث زیادہ مفید و نتیجہ خیز نہیں ہوگی،خود مولانا سجاد نعمانی بھی تذبذب کے ساتھ بیچ بیچ میں چل رہے ہیں ، جہاں وہ ایک آزاد،اصولی سوچ والی اپنی سیاسی پارٹی کی تشکیل اور اسی کو طاقتور بنانا لازم بتارہے ہیں تووہیں دوسری طرف لکھ رہے ہیں کہ موجودہ نازک ترین اور پیچیدہ مرحلے سے گزرتے ہوئے فی الحال مسلمانوں کے لیے اپنی الگ سیاسی پارٹی کا ملک کے اکثر مقامات پر نقصان فائدے سے بہت زیادہ ہوگا،فی ا لحال اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم نہایت سمجھ داری کے ساتھ اس پارٹی کی حمایت کریں جو ہمارے لیے بہت زیادہ مفید نہیں تو بہت زیادہ نقصان دہ بھی نہیں ، سوال یہ ہے کہ1940ءمیں مولانا محمد سجادؒ کے انتقال کے بعد، ملک کی آزادی سے اب تک ملک و ملت کے اکابر اور مسلم جماعتوں اورتنظیموں کے ذمے داران اور کیا کچھ کرتے آرہے ہیں؟
ملت کا اصل مسئلہ کسی مزید الگ آزاد،اصولی سوچ والی اپنی پارٹی کی تشکیل کا نہیں ہے بلکہ موجود پارٹیوں ، تنظیموں اور وفاق کے ساتھ مل کر کام کرنے اور باہمی تعاون و اشتراک سے موثر جدو جہد کا ہے ۔ اس کے بغیر کسی آزاد اصول سو چ والی اپنی سیاسی پارٹی کی تشکیل اور موجودہ وفاق کا کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوگا ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)