لکھنؤ :(ایجنسی)
یوپی میں پہلے مرحلے کی ووٹنگ میں صرف دو دن باقی ہیں۔ ٹکٹ، ڈیل، ایشوز، فارمولیشن، سیاسی حکمت عملی سب طے ہو چکی ہے، لیکن عوام جسے ووٹ دینے والے ہیں، انہیں ٹکٹ کیسے ملتا ہے؟ٹکٹ کا ریٹ کیا ہے ؟ پارٹیاں ٹکٹ کی ڈیل کیسے کرتی ہیں۔ اس کے پیچھے کی حقیقت اس اسٹنگ آپریشن میں قید ہے۔ اس میں بی ایس پی کو کوآرڈی نیٹر شمس الدین راعین 300 کروڑ لے کر بی جے پی کو 50 سیٹیں دینے پر رضامندی دیتے نظر آرہے ہیں ۔ راعین خود بتا رہے ہیں کہ ان کی پارٹی میں ایک ٹکٹ کا ریٹ ڈھائی سے تین کروڑ روپے ہے ۔
اسٹنگ پڑھنے اور دیکھنے سے پہلے اس کی ایک نظیر اور حقیقت جان لیں۔
یہ 16 جنوری کی بات ہے۔کانپور میں لکھنؤ نمبر کی اسکارپیو سےپولیس نے 50 لاکھ روپے برآمد کئے۔ گاڑی امین راعین چلا رہا تھا۔ امین اورئی کا رہنے والاہے۔ جانچ میں معلوم ہوا کہ امین بی ایس پی کے زونل کوآرڈی نیٹر شمس الدین راعین کا رشتہ دار ہے۔ یہ وہی شمس الدین ہیں جن کا اسٹنگ کیا گیا ہے۔
اس پہلے شمس الدین راعین کو جانئے … راعین فی الحال بی ایس پی کے ٹاپ-4 لیڈروں میں سے ایک ہیں۔ ان کےبارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ شمس الدین اس وقت بی ایس پی میں اسی نمبر دو کی حیثیت میں ہیں۔ جس پر کبھی نسیم الدین صدیقی ہوا کرتے تھے۔ نسیم الدین کے ساتھ چھوڑنے کے بعد مایاوتی نے 2020 میں شمس الدین کو اترپردیش کے 5 ڈویژنوں کے چیف سیکٹر انچارج کے ساتھ ساتھ اتراکھنڈ کے اسٹیٹ کوآرڈی نیٹر کی ذمہ داری سونپی تھی۔
انہیں شمس الدین کا اسٹنگ ہے …جس میں بی ایس پی میں ٹکٹ کے ریٹ، ڈیل، گھپلے، سنڈیکیٹ اور سازش کا پردہ فاش کیا گیا ہے۔
اب مکمل اسٹنگ پڑھیں..
تاریخ : 17 دسمبر 2021
وقت: رات 9 بجے
جگہ: دارالشفا، ایم ایل اے ریسٹ ہاؤس لکھنؤ
گوپال داس (آزاد صحافی): آپ سے اکیلے میں 5 منٹ کے لیے بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں بی جے پی کے لیے رابطہ کا کام کرتا ہوں اور میں ان دو تین لوگوں میں سے ایک ہوں جو یہ کام کرتے ہیں۔ بی ایس پی سے 50 سیٹوں کا بندوبست کرانا ہے۔
شمس الدین (بی ایس پی کے زونل کوآرڈی نیٹر) – کہاں سے؟
گوپال داس:آپ کے یہاں سے۔ فنڈنگ کی ضرورت ہوگی، تو ہو جائے گی ۔ جیسا آپ بتائیں گے ،ویسا کر لیں گے ۔
شمس الدین : کس حلقے کے لیے؟
گوپال داس: کہیں سے بھی۔ ہمیں صرف 50 سیٹوں کی ضرورت ہے۔ آپ کے یہاں جو بھی انتظام ہوگا، میں وہ کروں گا۔ ہر سیٹ کے لیے 2-3 کروڑ روپے مل جائیں گے۔
شمس الدین: آپ ہمارے پاس کیسے آگئے؟
گوپال داس: دیکھیں، آپ کے امیدوار نہیں جیت پائیں گے۔ انتخابی نشان آپ کا رہے گا۔ امیدوار ہمارا ہو گا۔
شمس الدین: اچھا ،اچھا۔
گوپال داس: ہمارے پاس 300 کروڑ کا فنڈ ہے۔
شمس الدین: بریلی اور لکھنؤ میں چاہتے ہیں؟ کون – کون سی کمشنری میں؟
گوپال داس: کوئی بھی سیٹ ہو۔آپ اپنی سیٹ کا نام بتائیں۔ امیدوار ہم بتائیں گے۔
شمس الدین: ابھی جتنی لائن دوسروں کے پاس لگی ہے، انتی ہی لائن ہمارے یہاں بھی ہے۔ فون پر بھی ہیں۔
گوپال داس: آپ فون پر ہی ہیں، فنڈ نہیں ہے، آپ کے پاس ہے۔
شمس الدین: کیا آپ مشرا جی کے پاس بھی گئے تھے؟
گوپال داس: نہیں، ہمارے دوسرے ساتھی گئے تھے۔
شمس الدین: آپ کو میرا رابطہ کس نے دیا؟
گوپال داس: میں ذریعہ نہیں بتاؤں گا۔
شمس الدین: تو یہ کیسے ہوگا؟
گوپال داس:وہ تو میں کر ادوں گا، جیسا کہ آپ کا یہاں سسٹم ہے۔ کاغذات نامزدگی ختم ہونے کے ساتھ ہی پوری رقم مل جائے گی، تاکہ ٹکٹ ملنے کا خدشہ نہ رہے۔ انہیں بغیر یوگی کی سرکار چاہئے۔
شمس الدین: نہیں، نہیں،وہ نہیں ہوگا۔ تو یوگی کو ہٹانا چاہتے ہیں یہ۔
گوپال داس: ہاں، انہیں مائنس یوگی حکومت چاہئے۔ اس لیے آپ کی مدد کی چاہئے۔ 100 کروڑ ایڈوانس ہوں گے۔ باقی پرچہ نامزدگی کے بعد۔
شمس الدین: 50 سیٹوں کے لیے 300 کروڑ روپے رہے گا۔
گوپال داس: ہاں، 300 کروڑ کا بجٹ ہے۔ اس میں ہم بھی ہم آپ سے لیں گے۔ آپ کو بھی فائدہ ہوگا۔
شمس الدین: سماجی حیثیت کیا ہوگی؟
گوپال داس : برہمن، مسلمان، یادو، کرمی رہیں گے۔ بی جے پی کے علاوہ کسی کے پاس پیسہ نہیں ہے۔
شمس الدین: نہیں، بات آپ کی صحیح ہے۔ اچھا آپ کا کردار کیا ہوگا؟
گوپال داس: میں آپ کو امیدواروں کی فہرست دوں گا، پیسے دوں گا۔ جب یہ 50 جیت جائیں گے تو ہمارا- آپ کا رول الگ ہوگا۔
شمس الدین: میں سمجھ گیا۔
گوپال داس: آپ فہرست دیں گے۔ امیدوار ہمارا ہو گا۔ پارٹی آپ کی ہوگی۔ آپ کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہوں گے۔
شمس الدین: جیتنے کے بعد وہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ اچھا انہیں لنگڑی حکومت چاہئے۔ یہ بات ہم سمجھ رہے ہیں کہ وہ سیکنڈلائن چاہتے ہی نہیں۔ یوگی کا نام توشاہ کے آگے ہو رہاہے ۔
گوپال داس: اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ آپ 50 لوگوں کے لیے ٹکٹ کا بندوبست کردیں۔ ہم رقم کا بندوبست کر لیں گے۔ 4 کروڑ یعنی 200 کروڑ ہوجائے گا۔ پھر 100 کروڑ آپ کو مل جائے گا۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کے یہاں ریٹ کیا ہے ۔
شمس الدین: ڈھائی سے تین میں ہے، لیکن آپ 50 سیٹوں کے 300 کروڑ بتا رہے ہیں۔
گوپال داس: 100 کروڑ آپ کے ہیں۔ میں توان کا سیوک ہوں، آپ کے حصہ سے ہی میں بھی اپنا 10 کروڑ لے لوں گا۔
شمس الدین: دیکھئے، ایک تو ہر اسمبلی میں ہمارے 50 ہزار ووٹ فیکس ہیں۔
گوپال داس:وہ ہم جانتے ہیں، اس لیے تومضبوط نام آپ کو دیں گے۔ ہمیں ایس پی کا ووٹ کاٹنا ہے ۔
شمس الدین: دیکھئے، میں آپ کو سوچ کر بتاتا ہوں ۔
گوپال داس: آگے آپ ترقی کرسکتے ہیں ۔ راجیہ سبھا بھی جاسکتے ہیں۔
شمس الدین: دیکھئے، آپ کا کچھ نہ کچھ تو لنک ہو گا ہی، تبھی تو ہمارے پاس آئے۔
گوپال داس: تو کل ہم ایک بار پھر آپ کے ساتھ بیٹھتے ہیں، کیا آپ وہاں ہوں گے؟
شمس الدین: ہاں، میں یہیں رہوں گا۔
گوپال داس:آپ ایک بار غور وخوض کرلیجئے۔
شمس الدین: ٹھیک ہے۔ میں 21 سال کی عمر سے پارٹی کے لیے کام کر رہا ہوں۔ اور آج اس بات کو 28-30 سال ہو چکے ہیں۔
اسٹنگ کا دوسرا دن…
شمس الدین نے براہ راست گوپال داس کو بیڈ روم میں بیٹھ کر بات چیت کی۔
گوپال داس: فنڈ آ کر رکھا ہے، آپ بولیں گے،فوراً پروگرام ہو جائےگا۔ مجھے بھی کچھ روپے مل جائیں گے۔
شمس الدین: میں یہی چاہتا ہوں، تھوڑا مجھے ایک رات کا وقت دیجئے۔ میں کل جاؤں گا دہلی۔ مجھے پروسوں دہلی میں مل لیجئے۔ بہت اچھا رہے گا۔ ایئر پورٹ پر مل جاؤں گا۔ آپ کہاں رہتے ہیں؟
گوپال داس: میں ہوٹل میں رہتا ہوں۔ میں اشوک میں رہتا ہوں؟ تین سال سے۔
شمس الدین: میں تھوڑا سوچتا ہوںکہ وہ کون سی سیٹ ہے، وہ کیا چاہتے ہیں؟
گوپال داس : ووٹ کاٹ کر ایس پی کو ہرانا ہے۔
شمس الدین: میری ملاقات کس کے ساتھ کروائیں گے؟
گوپال داس: سنگھ سے تعلق رکھتے ہیں، گوری شنکر جی، انہی سے ملواؤں گا ، سارا لین دین وہی کرتے ہیں ۔
شمس الدین: ریاست کا ایل آئی یو کیا کہہ رہا ہے؟
گوپال داس: مخلوط حکومت بنے گی۔ اس لیے میں یہ آپ کو دے رہا ہوں۔
شمس الدین: میں سمجھتا ہوں، لیکن یوگی جی کو روک کر ہم حکومت بھی بنا سکتے ہیں۔
گوپال داس: ہاں،یہ تو ہے ہی،پھر آپ کا بھی رول ہوگا۔
شمس الدین:میں تو رول والی ہی ہوں، نہیں، کل چھوڑ کر پروسوں رات میں ہم بیٹھیں گے۔ ہم دیکھتے ہیں۔ اچھا ہماری سرکار بن جائےتوبرائی کیا ہے۔
گوپال داس: آپ کو ہر طرف سے فائدے ہیں، الیکشن کے بعد کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
شمس الدین: نہیں، ٹھیک ہے۔ لیکن یہ رقم سیاست کے لیے بہت کم ہے۔ بہن جی سے بات کریں گے۔
گوپال داس: بہن جی سے بات کرنے سے ہمارا -آپ کا وجود ختم ہو جائے گا۔
شمس الدین: میں کرتا ہوں… پرسوں۔
گوپال داس: برہمن بی جے پی سے بہت ناراض ہیں۔ آپ کو سروے دے دوں گا۔
شمس الدین: چلو پھر کرتے ہیں بھائی صاحب۔ آج ہم 10:55 پر دہلی جا رہے ہیں۔ پرسوں شام نہیں تو نرسوصبح ہوجائے گا۔ بالکل بات کرتے ہیں۔
گوپال داس: 2 جنوری کو بی ایس پی میں ٹکٹوں کی فروخت کے سلسلے میں ایک اور بی ایس پی کوآرڈی نیٹر نوشاد علی سے ملنے کے لیے دوپہر میں ڈالی گنج پہنچے۔ نوشاد کہیں جانے والے تھے۔
گوپال داس: میں ایک ضروری کام سے آیا ہوں۔ میں بی جے پی کا کام دیکھ رہا ہوں۔ ہمیں آپ سے تھوڑی مدد کی ضرورت ہے۔ 50 نشستوں کا۔ آپ سب کا جو بھی حساب – کتاب میں کردوں گا۔
نوشاد: آپ کہاں سے ہو؟
گوپال داس: دہلی سے۔ میں بی جے پی کے لیے رابطہ کے لیے کا کام کرتا ہوں۔
نوشاد : کیسے کیا کرتے ہیں؟
گوپال داس: بس، رابطہ کرکے سیٹ دلوا دیتےہیں۔
نوشاد: میں یہ کام نہیں کر پاؤں گا۔ مجھ سے نہیں ہوپائے گا۔
شمس الدین نے کہا- اگر کوئی ویڈیو ثابت کر دے تو ساری زندگی اس کی غلامی کروں گا۔
اس ویڈیو کو لے کر بھاسکر نے شمس الدین راعین سے بات کر کے ان کا موقف معلوم کیا۔ شمس الدین کاکہنا ہے کہ مجھے نہیں ہے کہ ویڈیو کیاہے۔ میرے پاس پچاس لوگ آتے ہیں۔ کون کیا کررہاہے اورکہہ رہا ہے، کیا بنا رہاہے، میں نہیںجانتا ہوں۔ نہ ہی اس طرح کا میرا کوئی تصویر ہے۔
ہمارے خاندان اور رشتہ دار کاروبار کرتے ہیں، اگر کوئی کہیں سے پکڑا جائے تو وہ اس کا مسئلہ ہے۔ اور ویسے بھی، یہ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی کارروائی ہے۔
اس کے علاوہ 300 کروڑ میں 50 سیٹوں کی ڈیل کی باتیں بے بنیاد ہیں اور چندوخانہ کی باتیں ہیں۔ اگر کوئی آدمی ثابت کر دے تو میں عمر بھر اس کی غلامی کروں گا۔
ڈس کلیمر- پورے اسٹنگ میں گوپال داس نے جان بوجھ کر خود کو بی جے پی اور سنگھ کا فرد بتایا ہے۔ تاکہ بی ایس پی کے کوآرڈی نیٹر ان کی باتوں پر یقین کر سکیں۔ ان کا بی جے پی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ گوپال داس ایک آزاد صحافی ہیں۔