جوہری توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) کے سربراہ نے ایران کے اسرائیل پر حملے کے بعد تہران کی جوہری تنصیبات پر امکانی حملے سے متعلق اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ ایران نے اسرائیل پر بڑے میزائل اور ڈرون حملوں کے تناظر میں’سکیورٹی تحفظات‘کی بنا پر اپنی جوہری تنصیبات کو عارضی طور پر بند کر دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سکیورٹی کونسل کے اجلاس کے موقع پر پیر کو صحافیوں سے گفتگو کے دوران جب انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے سربراہ رافیل گروسی سے پوچھا گیا کیا وہ اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے امکان پر فکرمند ہیں۔اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ایسے کسی بھی امکان پر ہمیشہ فکرمند ہوتے ہیں، میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ ایران میں موجود انسپکٹرز کو ایرانی حکومت کی جانب سے اتوار کو مطلع کیا گیا کہ وہ جوہری تنصیبات جن کا ہم روز جائزہ لیتے ہیں، سکیورٹی تحفظات کی وجہ سے بند رہیں گی۔‘ان کا کہنا تھا کہ تنصیاب پیر کو کھلنا تھیں مگر انسپکٹرز اس کے ایک روز بعد تک وہاں رہیں گے۔’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ انسپکٹرز کو تب تک واپس نہ بلایا جائے جب تک صورت حال مکمل طور پر پرسکون نہیں ہو جاتی۔‘
ایران نے تین سو سے زائد ڈرونز اور میزائلوں کے ذریعے سنیچر اور اتوار کی درمیانی رات اسرائیل پر اس حملے کے جواب میں حملہ کیا تھا جو اس کی جانب سے دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر کیا تھا۔ اس حملے میں پاسداران انقلاب کے سات اہلکار ہلاک ہو گئے تھے جن میں دو جنرلز بھی شامل تھے۔
اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے ایران کے زیادہ حملوں کو ناکام بنانے کا دعوٰی کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان سے معمولی نقصان ہوا۔ تاہم اسرائیل کے ممکنہ جوابی اقدام سے خطے میں جنگ کے خدشات کو جنم دیا ہے۔
اسرائیل اس سے قبل خطے میں جوہری تنصیبات کے خلاف آپریشنز کر چکا ہے۔ 1981 میں اس نے واشنگٹن کی مخالفت کے باوجود صدام حسین کے دور میں عراق کے اوسیرک جوہری ری ایکٹر پر بمباری کی تھی۔ جبکہ 2018 میں 11 سال قبل شام کے ایک جوہری ری ایکٹر پر خفیہ فضائی حملے کا اعتراف کیا تھا۔تہران کی جانب سے اسرائیل پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ اس نے 2010 میں دو ایرانی جوہری طبعیات دانوں کو قتل کیا اور اس سے ایک سال قبل ایک طبعیات دان کو اغوا بھی کیا۔