قطرکے وزیراعظم نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اسرائیل کی غزہ جنگ کے خاتمے کے بعد فلسطینی اتھارٹی غزہ میں حکومتی امور چلانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی ڈیووس میں گفتگو کر رہے تھے۔
سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں ان دنوں ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس کا انعقاد ہو رہا ہے۔ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے نافذ العمل ہونے کے دو دن بعد ڈیووس اجلاس میں پہنچے ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر خبردار کرتے ہوئے کہا اہل غزہ یا کسی اور ملک کو نہیں چاہیے کہ وہ یہ بتائے کہ غزہ کی پٹی پر حکمرانی کس کی ہوگی۔البتہ انہوں نے کہا ‘ ہم امید کرتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی ایک بارپھر غزہ میں حکومتی امور کو چلائے گی۔ تاکہ غزہ کے لوگوں کو درپیش مسائل کو دیکھا جا سکے۔ غزہ کی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا اس تباہی کے اثرات بہت دیر تک ساتھ رہیں گے۔ ‘واضح رہے اسرائیل اور حماس کے درمیان طے پانے والے جنگ بندی معاہدے میں یہ معاملہ براہ راست طے نہیں کیا گیا کہ غزہ پر حکمرانی کون کرے گا۔ جنگ بندی معاہدے میں سیز فائر اور دونوں جانب کے قیدیوں کی تبادلے میں رہائی کا فیصلہ ہی ہوا ہے ۔ تقریباً ساڑھے پندرہ ماہ کی اس طویل جنگ کے حوالے سے اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدہ کرنے میں قطر ، مصر اور امریکہ نے ثالث ملکوں کا کردار ادا کیا ہے۔اسرائیل ایک عرصے سے جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ میں حماس کی حکومت کو قبول کرنے سے انکار کرتا چلا آرہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اسرائیل تقریباً اتنی ہی شدت سے غزہ کو فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے کا بھی مخالف ہے۔ تاہم یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے لیے تقریباً ایک سال سے جاری مذاکرات میں حماس کو اس معاملے میں قائل نہیں کیا جا سکا ۔
دوسری جانب مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ کو حماس کے بغیر دیکھنے کی جو خواہش کرتا رہا ہے اس کا تعلق اس کے تین جنگی اہداف میں سے تھا۔ لیکن چونکہ اسرائیل خود سمجھ رہا ہے کہ اس نے ان تین جنگی اہفداف میں سے ایک بھی حاصل نہیں کیا اس لیے جنگ بندی معاہدے میں وہ اور اس کی حمایت میں موجود مضبوط آواز بھی حماس کو اس سلسلے میں پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کر سکی ہے