دہلی فسادات میں 5 سال سے جیل میں بند سابق کونسلر طاہر حسین کو ضمانت نہیں ملی۔ وہ اے آئی ایم آئی ایم کے ٹکٹ پر مصطفی آباد اسمبلی سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ دہلی میں 5 فروری کو ووٹنگ ہے۔ بدھ کو طاہر حسین کی درخواست ضمانت کی سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ میں دو رکنی بینچ نے الیکشن لڑنے کے لیے طاہر حسین کی عبوری ضمانت کی درخواست پر منقسم فیصلہ دیا۔ اس کیس کو چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) کو بھیجا گیا تا کہ یا تو اسے تیسرے جج کے حوالے کیا جائے یا تین ججوں کی ایک بڑی بنچ تشکیل دی جائے۔
کیس کی سماعت دو ججوں پنکج متل اور احسان الدین امان اللہ نے کی۔ جسٹس احسا الدین امان اللہ نے کہا کہ جرم کی شدت کسی کو ریلیف دینے سے انکار کا واحد معیار نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے حسین کو 4 فروری تک عبوری ضمانت دے دی۔ انہوں نے کہا کہ حسین کو انتخابی مہم کے دوران زیر التوا مقدمات پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور انہیں پہلے خودسپردگی کی ہدایت کی جائے گی۔ ضمانت کی مدت ختم ہونے کے بعد واپس جیل چلے جائیں گے۔
دوسرے جج پنکج متل نے کہا کہ اگر طاہر حسین کو الیکشن لڑنے کے لیے عبوری ضمانت دی جاتی ہے تو اس سے پنڈورا باکس کھل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن سال بھر ہوتے ہیں اور ہر زیر سماعت قیدی کہے گا کہ وہ الیکشن لڑنا چاہتا ہے۔ "اس سے قانونی چارہ جوئی کا سیلاب آ سکتا ہے اور اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔” اختلاف رائے کا حوالہ دیتے ہوئے بنچ نے سپریم کورٹ رجسٹری کو ہدایت دی کہ وہ یہ معاملہ CJI کے سامنے رکھے۔ لائیو لاءکے مطابق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے دہلی پولیس کو سخت پھٹکار لگائی۔ درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس امان اللہ نے پولیس سے سخت سوالات کیے اور جاننا چاہا کہ عبوری ضمانت کی مخالفت کرنے والی پولیس پانچ سالوں میں صرف چند گواہوں کو جانچنے میں کیوں ناکام رہی؟
جسٹس امان اللہ نے کہا کہ یہ زندگی اور آزادی کا معاملہ ہے، اسی لیے ہم نے اس کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر رکھی۔ مسٹر راجو (ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو) آپ نے کیس مکمل کیوں نہیں کیا۔ دہلی پولیس نے پانچ سالوں میں پانچ گواہوں سے پوچھ گچھ کیوں نہیں کی؟
لائیو لاءکے مطابق،عدلیہ نے اصل چارج شیٹ کی طرف بھی اشارہ کیا – جس میں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے افسر انکت شرما کے قتل سے متعلق الزامات ہیں۔ یہ جون 2020 میں دائر کی گئی تھی جسٹس امان اللہ نے کہا کہ یہ سب دیکھنا ہوگا، آپ کسی کی اس طرح تذلیل نہیں کر سکتے، وہ پانچ سال میں ایک دن بھی جیل سے باہر نہیں آیا، مجھے اپنے حکم میں اس پر بھی لکھنا پڑے گا۔ اس پر آپ آنکھیں بند کر لیں… آئین کا آرٹیکل 21 (ذاتی آزادی کا حق) کس کے لیے ہے؟جسٹس امان اللہ نے یہ بھی کہا کہ "ملزم حسین نے ہنگاموں کے دوران پولیس کنٹرول روم کو فون کیا تھا، صرف اتنا ہی نہیں آپ (پولیس) کی چارج شیٹ کے ریکارڈ کے مطابق، اس نے پولیس سے مدد بھی مانگی تھی۔ آپ 5 سال سے گواہوں سے پوچھ گچھ نہیں کر سکے۔