ایک امریکی تھنک ٹینک نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ 2024 میں بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں میں "حیران کن” اضافہ ہوا ہے۔ جس نے ملک کی 220 ملین سے زیادہ مسلم آبادی کو اپنے مستقبل کے بارے میں بے چین کردیا ہے۔
امریکہ میں قائم تھنک ٹینک انڈیا ہیٹ لیب (آئی ایچ ایل) نے بھارت میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی مودی حکومت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں کے حوالے سے پیر کو ایک رپورٹ جاری کی۔
آئی ایچ ایل نے رپورٹ میں کہا کہ اضافہ ہوا ہے اس چونکا دینے والے اضافے کا "بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نظریاتی عزائم اور وسیع تر ہندو قوم پرست تحریک کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔” گذشتہ سال بھارت میں ہونے والے سخت انتخابی مقابلے کے دوران ناقدین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی پر الزام لگایا کہ انہوں نے انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیے جس کی مثال نہیں ملتی۔ ناقدین کے مطابق ان بیانات کا مقصد ہندو اکثریت کو متحرک کرنا تھا۔وزیر اعظم مودی نے اپنی ریلیوں میں، مسلمانوں کو ‘گھس پیٹھیا‘ (درانداز) کہا اور یہ دعویٰ کیا کہ اگر اپوزیشن جماعت کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ ملک کی دولت مسلمانوں کو بانٹ مودی نے جون میں مسلسل تیسری بار اقتدار میں کامیابی حاصل کی لیکن ایک دہائی میں پہلی بار ان کی بی جے پی کو زبردست انتخابی دھچکا لگا اور اسے مخلوط حکومت بنانے پر مجبور ہونا پڑا۔
حیران کن : بی جے پی کی ہندو قوم پرستانہ بیان بازی نے بھارت کے 22 کروڑ سے زائد مسلمانوں میں ان کے مستقبل کے حوالے سے شدید بےچینی پیدا کر دی ہے۔آئی ایچ ایل کی رپورٹ کے مطابق "2023 میں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے نفرت انگیز بیانات کے 668 واقعات رپورٹ ہوئے جو 2024 میں بڑھ کر 1165 تک پہنچ گئے یعنی ان میں بہت زیادہ 74.4 فیصد کا اضافہ ہوا۔”رپورٹ میں مزید بتایا گیا،”چوںکہ 2024 عام انتخابات کا سال تھا اس لیے اس نے نفرت انگیز بیانات کے رجحانات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔”
تحقیق کے مطابق 98.5 فیصد نفرت انگیز تقاریر مسلمانوں کے خلاف کی گئیں اور ان میں سے دو تہائی سے زائد بیانات ان ریاستوں میں دیے گئے جہاں بی جے پی یا اس
کے اتحادیوں کی حکومت ہے۔
خطرہ : رپورٹ کے مطابق بی جے پی کے رہنماؤں نے 450 سے زائد نفرت انگیز تقاریر کیں، جن میں سے 63 خود وزیراعظم نریندر مودی کی تھیں۔بی جے پی نے رپورٹ کی اشاعت سے پہلے اے ایف پی کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا، تاہم ماضی میں پارٹی ایسے الزامات کو ‘بے بنیاد‘ اور ’جھوٹا‘ قرار دے کر مسترد کرتی رہی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ "مسلمانوں کو خاص طور پر ہندوؤں اور بھارتی قوم کے لیے حقیقی خطرے کے طور پر پیش کیا گیا۔”رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ "سب سے زیادہ خطرناک اضافہ ان تقاریر میں ہوا جن میں عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کی حمایت کی گئی۔”ہندو بالادستی کے حامیوں نے مسلمانوں سے مذہبی مقامات واپس لینے کے مطالبے کو مزید شدت دی۔یہ رجحان اس وقت مزید بڑھ گیا جب وزیر اعظم مودی نے گذشتہ سال کے انتخابات سے قبل ایودھیا میں عظیم الشان رام مندر کا افتتاح کیا۔ یہ مندر اس جگہ پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں صدیوں پرانی بابری مسجد موجود تھی، جسے ہندو شدت پسندوں کے ہجوم نے سن 1992 میں منہدم کر دیا تھا۔
منافرت پھیلانے کے ذرائع
انڈیا ہیٹ لیب کے تجزیے کے مطابق نفرت انگیز مواد پھیلانے کے لیے فیس بک، یوٹیوب اور ایکس سب سے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز رہے۔آئی ایچ ایل کا کہنا ہے کہ انتخابات کے دوران، بی جے پی کے بڑے رہنماؤں کی 266 ‘اقلیت مخالف نفرت انگیز تقاریر‘ کو یوٹیوب، فیس بک، اورایکس پر بیک وقت پوسٹ کیا گیا۔ یہ تقاریر بی جے پی اور اس کے رہنماؤں کے آفیشل اکاؤنٹس کے ذریعے شیئر کی گئیں۔یہ رپورٹ ایسے وقت سامنے آئی ہے جب وزیر اعظم نریندر مودی اگلے چند دنوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے واشنگٹن میں ملاقات کرنے والے ہیں۔بھارتی اور امریکی رہنماؤں، جن پر ناقدین آمرانہ رجحانات کا الزام لگاتے ہیں، کے مابین 2017 سے 2021 تک گرمجوش تعلقات تھے، جب ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں تھے۔(سورس:ڈی ڈبلیو)