تجزیہ:شکیل اختر
وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید وسعت دینے کا اعلان کرتے ہوئے اربوں ڈالر کے نئے دفاعی سودوں اور انڈیا کو امریکی پیٹرول، گیس اور امریکی جوہری ری ایکٹروں کی فروخت کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔
اس منصوبے کے مطابق امریکہ انڈیا سے ہونے والے تجارتی خسارے کو بھی ختم کرے گا اور دونوں ملکوں نے باہمی تجارت کو آئندہ پانچ برس میں 500 ارب ڈالر تک پہنچانے کا اعلان بھی کیا۔
یہ بات اہم ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی دوسری صدرات کے ایک مہینے کے اندر ہی نریندر مودی کو امریکہ آنے کی دعوت دی اور ان سے مذاکرات کیے۔ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت میں مودی ان سے ملاقات کرنے والے چوتھے سربراہ حکومت ہیں۔ مودی کا دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا، جب صدر ٹرمپ نے انڈیا سمیت کئی ملکوں کے خلاف جوابی محصولات لگانے کا اعلان کیا تھا۔صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم مودی کے ساتھ مشترکہ کانفرنس میں بھی کہا کہ ’انڈیا نے امریکی مصنوعات پر بہت ڈیوٹی لگا رکھی ہے، جس کے سبب انڈیا میں کاروبار کرنا بہت مشکل ہے۔ اگر یہ ڈیوٹی کم کر کے امریکہ کے برابر نہیں لائی گئی تو جوابی ٹیرف نافذ کیا جائے گا۔‘
صدر ٹرمپ سے ملاقات اور مذاکرات کے بعد وزیر اعظم مودی نے ایکس پر ایک بیان میں کہا ’وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات بہت شاندار رہی۔ ہماری بات چیت سے انڈیا امریکہ دوستی کو نیا دور شروع ہو گا۔‘واشنگٹن میں دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ انڈیا باہمی تجارت میں ہونے والے خسارے میں امریکی مصنوعات کی خریداری سے توازن لائے گا۔مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ امریکہ انڈیا کو خام تیل اور گیس سپلائی کرنے والا بڑا ملک بننا چاہتا ہے۔یہ بھی کہا گیا کہ دونوں ممالک دفاعی تعاون کو اور مؤثر بنانے کے لیے دفاعی اشتراک کے فریم ورک کو نئی شکل دے کر اسے مزید دس برس کے لیے آگے بڑھائیں گے۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ اور انڈیا اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدے پر بات چیت کر رہے ہیں جس میں جدید ترین سٹیلتھ جنگی جہاز ایف 35 کی سپلائی بھی شامل ہو گی
انڈیا میں دونوں رہنماؤں کی ملاقات کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سرکاری سطح پر اسے ایک بہت کار آمد اور مفید دورہ قرار دیا گیا تاہم بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار نیانیما باسو کہتی ہیں کہ یہ دورہ انڈیا سے زیادہ امریکہ کے حق میں رہا۔
’امریکہ نے دفاعی ساز وسامان کی فروخت کے معاملے پر بہت زیادہ توجہ دی۔ انڈیا میں جنگی جہازوں کی خریداری کا عمل بہت لمبا ہوتا ہے۔ انڈین فضائیہ کی ایسی بہت سی تجاویز پہلے سے برسوں سے پھنسی ہوئی ہیں۔ ان حالات میں امریکہ کا یہ کہنا کہ وہ ایف 35 دینے والے ہیں۔ میرے خیال میں انڈیا دباؤ میں آ گیا۔ ہم نے وزیر اعظم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ دفاع کو سینٹر پوائنٹ پر رکھنا چاہتے ہیں۔ دونوں ممالک ڈیفینس کوآپریشن فریم ورک کو دس سال کے لیے بڑھا رہے ہیں۔ اس کے تحت بہت ساری دفاعی فروخت ہونے والی ہے۔‘
نیانیما کہتی ہیں کہ جہاں تک امریکہ سے تیل اور گیس خریدنے کی بات ہے تو امریکہ چاہتا ہے کہ انڈیا روس سے تیل خریدنا بند کر دے۔انھوں نے کہا کہ ’روس اس وقت انڈیا کو تیل سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس لیے روس سے خریداری فوراً بند کرنا ممکن نہیں ہو گا لیکن مشترکہ اعلامیے میں واضح طور پر یہ کہا گیا کہ امریکہ انڈیا کو تیل سپلائی کرنے والا بڑا سپلائر بننا چاہتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ کا تیل روس اور کئی دوسرے ملکوں سے مہنگا ہے۔‘نیانیما کہتی ہیں کہ یہ بات بھی اہم ہے کہ ٹرمپ سکیورٹی کے سوال پر چین کو چیلنج نہیں کرنا چاہتے کیونکہ بین اقوامی امور میں چین کا اہم کردار ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’چین کے صدر شی جن پنگ ایک سمبھدار رہنما ہیں۔ چین کے ساتھ انڈیا کا سرحدی تنازعہ ابھی حل نہیں ہوا۔ انڈیا کو چین کو بھی پارٹنر بنا کر چلنا ہے اور اس سے کاروبار بھی دوبارہ شروع ہو چکا
امر بھی قابل ذکر ہے کہ وزیر اعطم نریندر مودی نے غیر قانونی تارکین وطن کے سوال پر صدر ٹرمپ کی مکمل حمایت کی اور کہا کہ ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر آنے والے تارکین وطن کو ان کے ملک واپس بھیج دے۔‘یاد رہے کہ امریکہ سے 104 غیرقانونی انڈین تارکین وطن کو لے کر ایک امریکی فوجی طیارہ فروری کے پہلے ہفتے میں انڈیا پہنچا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ اقتدار میں امریکہ میں مقیم انڈین افراد کی یہ پہلی ملک بدری ہے( سورس بی بی سی )
(یہ تجزیہ نگار کے ذاتی خیالات ہیں )