متھرا میں ایک قومی سمینار کا انعقاد بعنوان "میرا بھارت مہان گنگا جمنی تہذیب کا نشان” حسن ہوم لائبریری، اے ایچ ایم اسکول میں منعقد ہوا… پروگرام کا آغاز نامور ادیب ڈاکٹر ظہیر حسن صاحب کی کتاب مرزا غالب اور جان کیٹس کا تقابلی مطالعہ کے اجرا سے ہوا۔ اس پروقار تقریب میں علم و ادب کے نامور شخصیات نے شرکت کی اور اپنی بصیرت افروز گفتگو سے سامعین کو مستفید کیاپروگرام کی صدارت پروفیسر عقیل نے کی، جبکہ نائب صدر ایڈوکیٹ ناصر عزیز رہے۔ مہمانِ ذی وقار کے طور پر ڈاکٹر شعیب رضا وارثی اور پروگرام کے سرپرست دل تاج محلی نے اپنی شرکت سے تقریب کو مزید وقار بخشا۔
پروگرام کا آغاز اسکول کے بچوں نے برقی اعظمی کے تحریر کردہ اسکول کے ترانے سے کیا، جس نے ماحول کو خوشگوار بنا دیا۔ اس کے بعد باضابطہ طور پر علمی و ادبی نشستوں کا آغاز ہوا، جس میں مختلف اسکالرز اور محققین نے اپنے مقالات پیش کیے۔
پہلا مقالہ چشمہ فاروقی نے پیش کیا، اس کے بعد ڈاکٹر محمد ایوب انصاری نے اپنی تحقیق سامعین کے گوش گزار کی۔ اس نشست کو مزید دلچسپ بنانے میں ڈاکٹر شفیع ایوب نے نمایاں کردار ادا کیا، جنہوں نے "اردو شعر و ادب میں قومی یکجہتی اور ہماری گنگا جمنی تہذیب: کیا بے وقت کی راگنی ہے؟”قومی یکجہتی کا تصور "کے عنوان سے اپنا بصیرت افروز مقالہ پیش کیا۔ ان کی مدلل گفتگو نے حاضرین پر گہرا اثر چھوڑا۔میرٹھ کےڈاکٹر آصف علی نے اپنے مقالہ بعنوان "نظیر اکبر آبادی کی فلسفیانہ اساس” کو نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا۔ ان کے بعد ڈاکٹر ارشاد نے اپنا مقالہ بعنوان "غالب کے غالب ہونے کا راز” گہری تحقیق پر مبنی مقالہ پیش کیا، جسے سامعین نے بے حد سراہا۔ اسی نشست میں ڈاکٹر سعدیہ سلیم شمسی نے اپنا مقالہ "اردو ادب میں قومی یکجہتی” کے عنوان سے پیش کیا، جسے حاضرین نے بے حد پسند کیا۔
اس موقع پر اسسٹنٹ کمشنر علیم کوثر نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا اور سمینار کی علمی و ادبی اہمیت کو اجاگر کیا۔یہ ادبی محفل شہر کی نامور علمی و ادبی شخصیات کی موجودگی میں ایک یادگار تقریب بن گئی۔ اس سمینار نے غالب کے فن اور اس کی عظمت کے راز کو سمجھنے میں ایک اہم کردار ادا کیا اور حاضرین کو اردو ادب کے اعلیٰ معیار سے روشناس کرایا۔
ڈاکٹر شعیب رضا خان وارثی نے سمینار میں پڑھے گئے تمام مقالات پر سیر حاصل گفتگو کی… ڈاکٹر شیخ عقیل نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ "ہمارا بھارت ایک عظیم راشٹر ہے، جس کی ثقافت میں اتحاد اور بھائی چارے کی گہری جڑیں موجود ہیں۔ گنگا جمنی تہذیب ہماری ادبی، ثقافتی اور سماجی زندگی کا وہ حسین امتزاج ہے، جو مختلف مذاہب، زبانوں اور روایات کو ایک دھاگے میں پروئے رکھتا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے علمی و ادبی سمینارز نہ صرف تحقیق و مطالعہ کے نئے دروازے کھولتے ہیں بلکہ نوجوان نسل کو اپنی ثقافتی اور ادبی ورثے سے جوڑنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اظہار تشکر ڈاکٹر ناہید اختر نے کیا ـ (سورس:پریس ریلیز)