خیبر پختونخوا کی پولیس کے سربراہ نے بی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ ضلع نوشہرہ میں واقع دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی مسجد میں نمازِ جمعہ کے بعد ہونے والے دھماکے میں مدرسے کے نائب مہتمم اور جے یو آئی (س) کے سربراہ مولانا حامد الحق سمیت چھ افراد ہلاک اور 12 افراد زخمی ہوئے ہیں۔57 سالہ حامد الحق حقانی دارالعلوم حقانیہ کے نائب مہتمم تھے۔ وہ 2002 سے 2007 تک قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے اور 2018 میں اپنے والد سمیع الحق کے قتل کے بعد جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ بنے تھےپولیس کے مطابق جائے وقوعہ سے خودکش حملہ اور کے اعضا ملے ہیں اور بم ڈسپوزیبل یونٹ کی ٹیمیں مزید شواہد اکھٹے کررہی ہیں اور دھماکے کی نوعیت کا پتہ لگایا جا رہا ہے۔

••مدرسہ کی سیاسی و تاریخی اہمیت
حملے میں نشانہ بننے والا مدرسہ پاکستان کے مدارس میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے اور مختلف ادوار حکومت میں اس مدرسے کو حکومتی گرانٹ بھی دی جاتی رہی ہے۔مدرسے کی بنیاد مولانا سمیع الحق کے والد شیخ الحدیث مولانا عبدالحق نے پاکستان بننے کے ایک ماہ بعد یعنی ستمبر 1947 میں رکھی تھی۔مدرسہ جمعیت علمائے اسلام (س) کے سابق سربراہ مولانا سمیع الحق کی وجہ سے بھی زیادہ شہرت رکھتا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر ذرائع ابلاغ میں مولانا سمیع الحق کو بابائے طالبان بھی کہا جاتا رہا ہے۔
مولانا سمیع الحق کو سال 2018 میں قتل کر دیا گیا تھا۔ماضی میں افغانستان سے تجارت اور آمد و رفت کے لیے یہ ایک اہم مقام رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ افغانستان سے ماضی میں بھی بڑی تعداد میں لوگ اس مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے رہے ہیں