تل ابیب: امریکا اور اسرائیل نے غزہ کے لوگوں کو مشرقی افریقہ میں بسانے کا منصوبہ تیار کرلیا ہے۔ اس کے لیے دونوں ممالک کے حکام نے مسلم اکثریتی افریقی ممالک سوڈان، صومالیہ اور صومالی لینڈ سے بات چیت شروع کر دی ہے۔ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے لوگوں کو پڑوسی ممالک اردن اور مصر میں آباد کرنے کی بات کی تھی۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ غزہ کی پٹی کو ایک رئیل اسٹیٹ پروجیکٹ کے طور پر تیار کیا جائے گا جس سے غزہ کے 20 لاکھ سے زائد لوگوں کو دوسرے ممالک میں آباد کیا جائے گا۔ اس منصوبے کو عرب ممالک اور فلسطینیوں نے یکسر مسترد کر دیا تھا۔ ایسے میں اب امریکہ نے غزہ کے باشندوں کو افریقہ لے جانے کے منصوبے پر کام کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
اے پی کی رپورٹ کے مطابق یہ سفارتی اقدام خفیہ طور پر کیا جا رہا ہے۔ امریکی اور اسرائیلی حکام نے صومالیہ اور صومالی لینڈ سے رابطوں کی تصدیق کی ہے۔ امریکی حکام نے سوڈان کے ساتھ رابطوں کا اعتراف کیا ہے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ مذاکرات کس سطح پر ہوئے اور اس میں کتنی پیش رفت ہوئی۔ امریکی حکام کے مطابق مذاکرات میں اسرائیل کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق سوڈان نے امریکی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ جبکہ صومالیہ اور صومالی لینڈ نے ایسی کسی بھی بات چیت کی تردید کی ہے۔
••• تین افریقی ممالک سے رابطہ
سوڈان شمالی افریقی ممالک میں سے ایک ہے جس نے 2020 میں ابراہیم معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ ایسا کرکے اس نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات معمول پر لائے۔ دو سوڈانی عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے پی کو بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطینیوں کو قبول کرنے کے بارے میں فوجی قیادت والی حکومت سے رابطہ کیا ہے۔ دونوں عہدیداروں نے کہا کہ سوڈانی حکومت نے اس خیال کو فوری طور پر مسترد کر دیا ہے۔صومالی لینڈ تین دہائیوں قبل صومالیہ سے الگ ہو گیا تھا لیکن اسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ صومالیہ اب بھی صومالی لینڈ کو اپنا علاقہ مانتا ہے۔ صومالی لینڈ کے نئے صدر عبدالرحمان محمد عبداللہی نے بین الاقوامی تسلیم پر زور دیا ہے۔ ایسی صورت حال میں امریکہ فلسطینیوں کو تسلیم کرنے کے بدلے آباد کاری کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے۔ تاہم صومالی لینڈ کے حکام نے اس حوالے سے کسی قسم کی بات چیت کی تردید کی ہے۔