وارانسی :(ایجنسی)
مسلمان مسلسل کہہ رہے تھے کہ گیان واپی مسجد پر پلیس آف ورشپ ایکٹ یعنی عبادت گاہ قانون لاگو ہوتا ہے ۔ لہٰذا اس معاملے میں دائر عرضی پر سماعت ہونی ہی نہیں چاہئے۔
اب شیولنگ ملنے کے بعد وہی بات ہندوؤں کے حق میں آگئی ہے۔ جب عبادت گاہ قانون نافذ ہوتا ہے اور وہاں شیولنگ ملا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہاں پہلے مندر تھا اور بعد میں مسجد بنائی گئی۔ اس لیے مسجد کو گرا دیا جائے۔ اس معاملے میں بھی ایودھیا کی طرح ہی فیصلہ آئے گا۔
یہ بات 33 سال میں ہندوؤں کے 110 کیس لڑچکے وکیل ہری شنکر جین نے کہی۔ وہ کہتے ہیں 4 جولائی کو سپریم کورٹ اس معاملے میں سماعت کرے گی۔
جین 1989 سے صرف ہندوؤں کے لیے لڑ رہے ہیں
69 سالہ ہری شنکر جین 1989 سے صرف ہندوؤں کے کیس لڑ رہے ہیں۔ وہ بھی بغیر کسی فیس کے۔ اب تک ایسے 110 چھوٹے یا بڑے کیس لڑ چکے ہیں جن کا تعلق ہندو جماعتوں سے تھا۔ ابھی سرخیوں میں ہیں، کیونکہ میڈیا میں یہ خبریں آئی تھیں کہ گیان واپی مسجد معاملے میں ہندو فریق نے انہیں پیروی سے ہٹا دیا ہے۔
ہری شنکر جین نے بھاسکر سے کہا – مجھے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ 5 میں سے 4 کلائنٹس میرے ساتھ ہیں۔ میں نے ان لوگوں کو بھی مقرر کیا تھا جنہوں نے مجھے دھوکہ دیا۔ اس لیے ان افواہوں کے بارے میں مت سوچیں۔ میرے پاس اس وقت 7 بڑے کیس ہیں جن میں گیان واپی، قطب مینار، تاج محل، متھرا، ٹیلے والی مسجد اور بھوج شالہ شامل ہیں۔ ملک بھر میں کئی مقامات سے ہر روز فون آتے ہیں ۔ جہاں مندر توڑے گئے ہیں اور جس کے پختہ ثبوت ہیں، ان سب کی لڑائی لڑوں گا۔ جہاں کے پختہ ثبوت نہیں ہے، وہاں کی لڑائی میں نہیں لڑتا۔
ہری شنکر جین نے تمام باتیں بھاسکر کے ساتھ شیئر کیں۔ ساتھ ہی ان کے پاس جو 6 بڑے کیس ہے، ان کا لیگل اسٹیٹس بھی بتایا ۔ پڑھیں اور دیکھئے یہ یہ خصوصی رپورٹ۔
کیس: گیان واپی مسجد
صورتحال: یہ کیس وارانسی ڈسٹرکٹ کورٹ میں چل رہا ہے۔ مسلم فریق کی درخواست کی سماعت کے بعد کیس آگے بڑھے گا۔
سماعت کی تاریخ: 4 جولائی
جین کا دعویٰ: یہاں حقائق بالکل واضح ہیں۔ مندر کو توڑ کر زبردستی قبضہ کرکے اس پر نماز پڑھی جانے لگی۔
تہہ خانے کے درمیان میں آدی وشویشور کی جگہ ہے،یہیں پہلے شیولنگ نصب تھا ۔ مسجد کے نیچے کا حصہ اب بھی پرانے مندر کے ڈھانچے پر کھڑا ہے۔
فرسٹ فلور پر مندر کی چھوٹی پر ہی گنبد رکھ دی گئی ۔ تینوں گنبدوں کے نیچے ہندوؤں سے جڑے تمام علامات ملی ہیں ۔
ویڈیو گرافی ہوچکی ہے۔ اگر شیولنگ کی بھی سائنسی تحقیق کی جائے گی تو اس پر سوال اٹھانے والے خاموش ہو جائیں گے۔
مقدمہ: قطب مینار
صورت حال: یہ مقدمہ دہلی کی ساکیت عدالت میں چل رہا ہے۔ قطب مینار کمپلیکس کے اندر عبادت کا حق مانگنے والی درخواستوں کی سماعت جاری ہے۔
سماعت کی تاریخ: 24 اگست
جین کا دعویٰ: یہ 27 ہندو-جین مندروں کو توڑ کران کے ملبے سے ہی اس کی تعمیر کرائی گئی ہے۔ اسے قوۃ الاسلام کہاجاتا ہے ، یعنی اسلام کی طاقت ۔
یہ مسجد نہیں، اسلام کی طاقت کی علامت ہے کہ دیکھو ہندوؤں، ہم تمہارے مندر توڑ سکتے ہیں۔ اس بات کے پختہ ثبوت ہیں کہ 27 مندروں کو گرا کر تعمیر کرایا گیا ہے۔
کیس: بھوج شالہ
اسٹیٹس: اندور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی گئی ہے۔ درخواست 11 مئی کو داخل کی گئی تھی۔ تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔
سماعت کی تاریخ: جولائی-اگست کی تاریخ مل سکتی ہے۔
جین کا دعویٰ: 1034 میں، راجہ بھوج نے یہاں ایک عظیم الشان گروکل بنایا تھا، جہاں سنسکرت گرامر، علم نجوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ بھوج شالہ کو علاؤالدین خلجی نے مسمار کر دیا تھا۔
بعد میں دلاور خان غوری نے 1401 میں بھوج شالہ کے ایک حصے میں ایک مسجد بنوائی دی۔ 1514ء میں محمود شاہ خلجی نے باقی ماندہ حصے پر بھی مسجد بنوائی دی۔
بعد میں، بھوج شالہ کو محکمہ آثار قدیمہ کے تحت کردیا گیا۔ اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کے پاس ہے۔
2003 سے، ہندوؤں کو ہر منگل اور بسنت پنچمی کو طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک عبادت کرنے کی اجازت ہے اور مسلمانوں کو جمعہ کے دن نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔
ہم یہاں مسلمانوں کی نماز کے خلاف ہیں، کیونکہ یہ ہندوؤں کی جگہ ہے۔ ہم نے عدالت سے پورے علاقے کے آثار قدیمہ کے سروے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
کیس: متھرا
صورت حال: یہ مقدمہ متھرا ڈسٹرکٹ کورٹ میں چل رہا ہے۔ کیس نمبر 353 ہے۔ تمام فریقین سے جواب طلب کر لیا گیا ہے۔
سماعت کی تاریخ: یکم جولائی
جین کا دعویٰ: 1968 میں شری کرشنا جنم استھان سیوا سنگھ اور مسجد عیدگاہ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔ اس کے بعد ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کو ایک بہت بڑی زمین دی گئی۔ یہ معاہدہ مکمل طور پر فرضی ہے۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مسجد کو گرا دیا جائے، کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ شری کرشن کی پیدائش کنس کی جیل میں ہوئی تھی۔
اور اصل جائے پیدائش وہ ہے جہاں مسجد بنی ہے۔ جہاں اب مندر بنایا گیا ہے، وہ اصل جگہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس اس کے تمام حقائق اور ثبوت موجود ہیں۔
کیس: تاج محل
صورت حال: یہ مقدمہ آگرہ سول کورٹ میں زیر التوا ہے۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ تیجو مہالیہ ہے اور پہلے یہاں ہندو مندر ہوا کرتا تھا۔ اس لیے ہندوؤں کو دوبارہ قبضہ ملنا چاہیے۔
سماعت کی تاریخ: ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔
جین کا دعویٰ: یہ مقدمہ 2015 سے زیر التوا ہے۔ اس میں تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں اور جلد ہی سماعت ہوگی۔
وہ کہتے ہیں، تاج محل کے 22 کمروں میں سارے راز پوشیدہ ہیں۔ جس دن یہ کمرے کھلیں گے اور آثار قدیمہ کا سروے ہوگا، ساری حقیقت سامنے آجائے گی۔
میں اپنے اخراجات سے لڑتا ہوں، میری کمائی کا 50 فیصد قانونی چارہ جوئی میں خرچ ہوتا ہے۔
جین کہتے ہیں کہ ہندوؤں کی خاطر میں اپنے خرچ پر سارے کیس لڑتا ہوں۔ میری کمائی کا 50 فیصد قانونی چارہ جوئی میں چلاجاتا ہے۔
میں نے سوشلسٹ اور سیکولر الفاظ کی ترمیم کی درستگی کو بھی چیلنج کیا ہے جو کہ ہندوستان کے آئین کے تمہید میں شامل ہیں۔
میں نے سوشلسٹ اور سیکولر الفاظ کی ترمیم کی درستگی کو بھی چیلنج کیا ہے جو کہ ہندوستان کے آئین کے تمہید میں شامل ہیں۔
سونیا گاندھی کی شہریت کو بھی چیلنج کیا ۔ اس کے ساتھ غلط طریقے سے تقسیم کی جارہی حج سبسڈی کو روکنے کی بھی اپیل کی تھی۔ مودی سرکار آنے کے بعد حج سبسڈی بھی بند کر دی گئی ہے۔
باپ بیٹا مل کر لڑتے ہیں
ہری شنکر جین کا بیٹا وشنو جین بھی 2010 سے اپنے والد کے ساتھ ہندوؤں کا مقدمہ لڑ رہا ہے۔ ان کی پریکٹس شری رام جنم بھومی کیس سے شروع ہوئی۔ باپ بیٹے نے متھرا میں شری کرشن جنم بھومی کیس کو سنبھالا۔
لکھنؤ میں واقع ٹیلے والی مسجد کے باقی ماندہ گوفہ ہونے کا دعویٰ بھی ان باپ بیٹوں کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔
ہری شنکر جین کہتے ہیں – ہمارے پیچھے کوئی تنظیم نہیں ہے اور نہ ہی ہم کسی سے چندہ لیتے ہیں۔ ہم سیکورٹی بھی نہیں مانگتے، کیونکہ سیکورٹی ایک طرح سے اسٹیٹس سمبل ہے، جو مجھے پسند نہیں۔