تحریر:شکیل اختر
گذشتہ ہفتے ہی راجستھان میں درگاہ اجمیر پر حضرت خواجہ معین الدین چشتی کا 813 واں سالانہ عرس اختتام پذیر ہوا ہے جس میں نہ صرف ملک بھر سے بلکہ بیرون ملک سے لاکھوں زائرین شریک تھے اور اس دوران پورا علاقہ روحانیت اور تصوف کے رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔
گذشتہ آٹھ سو برس سے خواجہ معین الدین چشتی کے آستانے پر لاکھوں لوگ بلا تفریق مذہب و ملت آتے رہے ہیں۔ لیکن رواداری محبت اور مشترکہ تہذیب کا یہ مرکز اب ایک مذہبی تنازع کی زد میں ہے۔
انڈیا میں کئی تاریخی مساجد کے بعد اب اجمیر کی درگاہ پر بھی ہندو مندر ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اور اس سلسلے میں دائیں بازو کی ایک سخت گیر ہندو تنظیم ‘ہندو سینا’ کے صدر وشنو گپتا نے خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے خلاف دائر مقدمے میں یہ دعوی کیا ہے کہ یہ درگاہ بھگوان شیو کے مندر کو توڑ کر اس کی جگہ پر بنائی گئی تھی۔
انھوں نے اجمیر کی ذیلی عدالت سے درخواست کی ہے اسے ‘سنکٹ موچن مہادیو مندر’ قرار دیا جائے۔ اس سے پہلے بھی ملک کی کئی مساجد کے خلاف مقدمے دائر کیے گئے ہیں لیکن رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کی مثال سمجھے جانے والی خواجہ کی درگاہ کے خلاف مقدمے نے اس رحجان کو اور بھی الجھا دیا ہے۔
**درگاہ اجمیر کی تاریخ کیا ہے؟
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ ایران کے صوبے سیستان میں پیدا ہوئے تھے اور سفر کرتے کرتے اجمیر پہنچے اور یہیں پہاڑوں کے دامن میں اپنا مسکن بنایا اور یہیں پر وفات پائی-
مورخ مہرو جعفر اپنی کتاب ‘دی بک آف معین الدین چشتی’ میں لکھتی ہیں کہ وہ 14 برس کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے۔ ان کی ایک اتفاقیہ ملاقات ایک صوفی ابراہیم قندوزی سے ہوئی جنھوں نے انھیں حق کی جستجو اور روحانیت کی طرف مائل کیا۔20 برس کی عمر تک وہ دور دراز کے شہروں اور ملکوں کا سفر کر چکے تھے۔ انھوں نے منطق، قواعد، فلسفہ، اخلاقیات اور مذہب کی تعلیم بخارا اور سمرقند کے مدارس میں حاصل کی۔افغانستان کے صوبے ہرات میں ان کی ملاقات چشتی سلسلے کے صوفی خواجہ عثمان ہارونی سے ہوئی جو ان کے روحانی استاد بنے۔ حضرت معین الدین چشتی نے حضرت قطب الدین بختیار کاکی کو اپنا پہلا شاگرد بنایا اور انھیں کے ساتھ ملتان کا سفر کیا۔ملتان میں انھوں نے سنسکرت زبان کا مطالعہ کیا اور ہندو عالموں سے مذاکرات کیے۔ وہاں سے وہ لاہور اور دلی گئے۔ وہ 1191 میں اجمیر پہنچے۔مورخ مہرو جعفر کے مطابق یہاں ان کی ملاقات اپنی اہلیہ بی بی امت اللہ سے ہوئی اور انھوں نے اجمیر میں قیام کرنے کا فیصلہ کیا۔
‘بی بی اور حضرت معین الدین چشتی کا چھوٹا سا مٹی کا مکان بہت جلد بے گھر اور بھوکے لوگوں اور سکون تلاش کرنے والوں کی پناہ گاہ بن گیا۔ ان کی سخاوت اور بے لوث خدمت کے جذبے کے سبب انھیں لوگوں نے غریب نواز کا خطاب دیا۔’اس صوفی فقیر کے آستانے کے در و دیوار مملوکی سلطانوں سے لے کر مغلیہ بادشاہوں تک نے تعمیر کروائے۔ اور کتنے بادشاہوں نے اس فقیر کے آستانے پر آکر انھیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
مورخ رعنا صفوی نے ‘ان سرچ آف دی ڈیوائن: لیونگ ہسٹریز آف صوفیزم ان انڈیا’ میں لکھا ہے کہ مسلم حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ہندو راجاؤں نے بھی اجمیر کی درگاہ میں تعمیرات کرائی تھیں۔وہ لکھتی ہیں کہ ایک مراٹھا سردار کمار راؤ سندھیا نے اجمیر ميں رہائشی کمرے تعمیر کرائے تھے۔ انھیں یقین تھا کہ خواجہ کی دعا سے ان کے یہاں بیٹا ہوا۔ اسی طرح 18 ہویں صدی میں مہارانی بیزا بائی نے 1709 میں جودھپور کے راجہ اجیت سنگھ نے اور 1800 میں بڑودہ کے مہاراجہ نے درگاہ میں تعمیرات کرائی تھیں
کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ روحانیت اور محبت کاپیغام دینے والے خواجہ کی درگاہ کے بارے میں کوئی مذ ہبی تنازع پیدہ ہو گا۔یہ مزار صرف روحانیت کا مرکز نہیں ہے، یہ ملک کی مشترکہ تہذیب اور ثقافت کا ایک مظہر ہے۔ اس کے خلاف مقدمہ انڈیا کے تصور اور ملک کی تاریخ کے لیے ایک بہت بڑا نظریاتی چیلنج ہے۔مورخ انیرودھ کانی سیتی نے مسلم عبادت گاہوں اور درگاہوں پر دائیں بازو کی تنظیموں کے بڑھتے ہوئے حملے کے پس منظر میں اپنے ایک مضمون میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ‘اجمیر کی درگاہ کے خلاف نئی مہم نہ صرف انڈیا کے مسسلمانوں کی تاريخ سے انکار کرنا ہے بلکہ یہ انڈیا کی تاریخ پر ایک براہ راست حملہ ہے۔ (بشکریہ بی بی سی)