تحریر محمد جاوید شبلی
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اقبال
مولانا آزاد علم وعمل کا وہ روشن چراغ ہیں جس سے آج بھی زندگی کی راہیں منور ہیں اور منزل کے طلب گاروںکو دعوت عمل دے رہی ہیں۔
مولاناآزاد ایک ہمہ گیر صلاحیتوں والی شخصیت کا نام ہے، وہ شاعر تھے، ادیب تھے، صحافی تھے، عربی وفارسی کے جید عالم تھے، مفکر اسلام تھے، مفسر قرآن تھے، دانشور تھے، سیاست داں تھے، بہترین مقرر تھے، بلکہ یوں کہئے کہ وہ اپنی ذات سے ایک انجمن تھے۔ہمارے ملک کی تحریک آزادی کے صف اول کے سپاہی تھے۔ انہوںنے آزادی کے بعد ہندوستان کی سیاسی اور تعلیمی پالیسی کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مقرر ہوئے اور انہوں نے اپنے عہدے پر رہتے ہوئے تعلیمی ڈھانچے کو ایسی مضبوط بنیادیں فراہم کیں کہ جن پر آج کہ شاندار عمارت وجود میں آئی۔
مولانا آزاد کا نام محی الدین احمد، تاریخی نام فیروز بخت، کنیت ابواکلام اور تخلص آزاد تھا۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں زیادہ ترنام ابوالکلام ہی تحریر کیا ہے۔
مولاناآزاد کی ولادت 11 نومبر 1888 ء میں مکہ معظمہ میں ہوئی۔ ان کے والد مولانا ضمیر الدین کے اجداد دلی کے رہنے والے تھے۔ ان کا خاندان مغلیہ حکومت کے ابتدائی دور میں ہرات سے ہندوستان آیا اورآگرہ میں مقیم ہوا۔ عہد اکبری میں یہ خاندان دلی منتقل ہوا اور مستقل سکونت اختیار کی۔ ان کا شمار دلی کے پایہ کےعلماء میں ہوتا تھا اور دربار مغلیہ میں ان کا رسائی تھی۔ وقت گزر تا گیا ۔ دہلی کا سیاسی ماحول سازگار نہ ہونے کے سبب مولانا کے والد ہجرت کرکے حجاز چلے گئے اور پھر مکہ معظمہ میں سکونت اختیار کرلی۔ اور وہیں پر ایک عرب خاتون سے شادی کرلی۔ مولانا آزاد کی مادری زبان عربی تھی لیکن انہوں نے اتنی اردو سیکھ لی تھی کہ وہ آسانی سے بات چیت کرسکیں۔ مولانا آزاد کی پیدائش مکہ معظمہ میں ہی ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد مولانا کے والد وہاں سخت بیمار پڑے۔ علاج سے کوئی فائدہ نہ ہونے کے سبب بغرض علاج مع اہل وعیال واپس ہندوستان آگئے اور بمبئی میں قیام کیا۔ اس کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ کلکتہ میں منتقل قیام پذیر ہوگئے۔
مولانا آزاد کی تعلیم وتربیت اپنے والدین کے زیر سایہ ہوئی۔ وہ دس سال کی عمر میں اپنے خاند ان کے ساتھ ہندوستان آئے اور یہیں پر ان کی تعلیم وتربیت کا سلسلہ جاری رہا۔ مولانا آزاد کی ادبی زندگی کا آغاز گیارہ سال کی عمر سے ہوا۔ سب سے پہلے شاعری کی طرف توجہ دی اور بعد میں نثر کی طرف متوجہ ہوئے۔
مولوی عبدالواحد خاں نے ان کا تخلص آزاد رکھا۔
مولانا آزاد کو صحافت سے حد درجہ دلچسپی تھی۔ انہوں نے کلکتہ سے 1899 ء میں ’’نیز یگ خیال‘‘ جاری کیا۔ یہ آٹھ ماہ تک نکلتا رہا۔ اس کے بعد ’’ المصباح ‘‘ نکالا پھر ’’لسان الصدق‘‘۔
مولانا نے کلکتہ سے ہی 13 جولائی 1912 ء کو اخبار ’’ الہلال ‘‘ جاری کیا۔ اس کے بعد 12 نومبر 1815ء کو دوسرا اخبار ’’ البلاغ‘‘ نکالا ۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی اخبار نکالے اور کئی کی ادارت کی۔
مولانا کی ادبی اور سیاسی زندگی ساتھ ساتھ چلتی رہی اور مولانا اپنے اخبارات کے ذریعہ تحریک آزادی کو جلا بخشتے رہے اور خود بھی عملی طور سے سرگرم رہے۔ تحریک خلافت، ترک موالات اور دیگر تحریکوں میں حصہ لیا جس کے سبب ان کو قیدو بند کی صعوبتیں اٹھانی پڑیں۔ 1940 ء میں آل انڈیا نیشنل کانگریس کے صدر مقرر ہوئے اور مسلسل 1946ء تک رہے۔
مولانا کادینی وعلمی کارنامہ ان کی قرآن کی تفسیر ’’ ترجمان القرآن‘‘ ہے جو چار جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کی پہلی جلد کی اشاعت 1931 ء میں ہوئی ۔
مولانا آزاد نے تصنیفی کارہائے نمایاں صرف اردو میں ہی نہیں بلکہ عربی، فارسی اور انگریزی میں بھی انجام دیے۔ ان کی سیکڑوں عربی، فارسی اور اردو اشعار از بر تھے ،جو اپنی تحریر و تقریر میں استعمال کیا کرتے تھے۔ ان کی مشہور کتاب انڈیا ونش فریڈم ( INDIA WINS FREEDOM)ہے جو ان کی سیاسی یاد داشتوں کا مجموعہ ہے۔ انگریزی زبان میں ہے۔ بعد اس کے کئی ترجمے اردو میں شائع ہوئے۔
مولانا آزاد کی دوسری مشہور کتاب ’’غبار خاطر‘‘ ہے جو ان کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ انہوں نے جو قلعہ احمد نگر میں قید ہونے کے دوران اپنے دوست حبیب الرحمٰن خاں شیروانی کو لکھے تھے۔
ان کی نثر کو دیکھ کر مولانا حسرت موہانی نے اس طر ح تعریف کی تھی:
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میں وہ مزا نہ رہا
حالانکہ مولانا حسرت موہانی خود بھی بہت اچھے نثر نگار تھے۔
مولانا آزاد کی ادبی، سیاسی اور سماجی کارناموں کی بہت لمبی فہرست ہے ۔ ان کی خدمات پر سیکڑوں مقالے لکھے جاچکے ہیں اور کتابیں چھپ چکی ہیں اور آج بھی یہ کام جاری ہے ۔
مولانا آزاد نے 22 فروری 1958 ء کو اس دار فانی سے کوچ کیا اور جامع مسجد دہلی کے سامنے اردو پارک میں مدفون ہوئے۔
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے
غالب