تحریر: نازش ہما قاسمی
نوٹ:یہ مضمون ایک نقطہ نظر کے طور پر دیا جارہا گرچہ مسلم قیادت کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ،باوجود اس کے کہ اختلاف کا حق ہے ،مگر اس طرح کے مضامین بتاتے ہیں کہ ہماری نئی نسل کیا امید توقعات رکھتی وہ ریلیف ورک کے ساتھ اور کچھ بھی چاہتی ہے،نوجوانوں کے اندر پائی جانے والی بے چینی اور دو نسلوں کے درمیان روابط اور اور دوری کے اظہار کا بھی پتہ چلتا ہے ۔(ادارہ)
آزادی ہند کے بعد سے ہی ملک میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو فرقہ پرستی کا نشانہ بنایا گیا، ہاشم پورہ، ملیانہ، میرٹھ، بھاگلپور، بہار شریف، بھیونڈی، ممبئی، عادل آباد، گجرات، مظفر نگر، تریپورہ اور دہلی سمیت سینکڑوں مقامات پر ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جہاں صرف ایک کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا ان کی جانیں گئیں، دکانات جلائی گئیں، گھروں کو تباہ و برباد کردیا گیا اور بعد میں انہیں ہی مجرم بناکر جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا گیا۔ ظلم ڈھانے والے، آگ لگانے والے، خون کی ہولی کھیلنے والے آزاد گھومتے رہے اور مظلوموں اور معصوموں کو پابند سلاسل کردیا گیا۔ کچھ نام نہاد سیکولرازم کی پاسدار پارٹیوں نے آواز اٹھائی اور پھر خاموش ہوگئیں، مسلم لیڈران نے صابر اور حلیم و بردبار بن کر مسلمانوں کو صبر کی تلقین کی اور ملک کے آئین کے احترام کا سبق دیتے رہے اور مسلمان بھی اتنے صابر شاکر ہوئے کہ لٹتی عصمتوں اور برباد ہوتے گھروں کو صبروضبط سے دیکھتے رہے اور “ہم بھارت کے وفادار شہری ہیں” اس کا ثبوت پیش کرنے کی کوشش کرتے رہے؛ لیکن افسوس کہ دہائیوں بعد بھی کسی پارٹی یا لیڈر نے ہمارے زخموں کی مرہم پٹی نہیں کی اور نہ ہی رونما ہونے والے فسادات کی روک تھام کے لیے خاطر خواہ اقدامات کئے۔
آزادی کو تقریبا اسی سال کا عرصہ ہونے کو ہے؛ لیکن مسلمانان ہند ذہنی غلامی سے اب تک آزاد نہیں ہوئے ہیں وہ اب بھی غلام ہی ہیں، مارے کاٹے جانے کے باجود بھی انہیں شعور نہیں آیا ہے، سیکولر پارٹیوں کے ذریعے استحصال انہیں ہمدردی نظر آتی ہے جو ذہنی غلامی کی انتہا ہے، اپنی قیادت سے دور شتر بے مہار مسلمان کبھی اس پارٹی کی گود میں تو کبھی اس پارٹی کی گود میں ایک پارٹی کے ڈر سے بیٹھے ہوئے ہیں اور آج ستر سال بعد حال یہ ہے جس سے سیکولر پارٹیاں ڈرا رہی تھیں اسی پارٹی کی ملک کے طول و عرض پر حکومت ہے اور ہوسکتا ہے ملک کے عوام کی ذہنیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ طویل عرصے تک اسی پارٹی کی حکومت رہے گی۔
خیر بات چل رہی تھی ملک میں پے درپے ہونے والے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ہورہے مظالم کی جس کا سلسلہ دراز سے درازتر ہے، بی جے پی کے دور اقتدار کو ہم برا بھلا کہنے سے پہلے ہاشم پورہ، مرادآباد قتل عام پر نظر دوڑالیں، اخیر میں گجرات فسادات اور مظفر نگر فسادات اور دہلی فسادات پر بھی نظرثانی کرلیں صرف بی جے ہی مجرم نہیں تمام سیکولر پارٹیاں مجرم ہیں۔ مسلمانوں کے خون سے صرف دنگائیوں نے ہولی نہیں کھیلی ہے؛ بلکہ اس میں حکومت کے تخت پر براجمان نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی برابر کی شریک ہیں۔ ابھی حالیہ تری پورہ فسادات کو دیکھ لیں جہاں جنونی ہندوؤں نے بنگلہ دیش میں ہوئی فرقہ پرستی کا بدلہ وہاں کے مسلمانوں سے لینا شروع کردیا ہے، درجنوں مساجد نذرآتش کردی گئیں ہیں، سینکڑوں گھر برباد کردیے گیے ہیں اور پتہ نہیں کتنی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا اس کی تفصیلات نہیں ہیں، تقریبا ایک ہفتے سے تری پورہ جل رہا ہے فی الحال بی جے پی کی وہاں حکومت ہے وہی بی جے ہی جس کی آسام اور میزورم میں حکومت ہے جہاں چند ماہ قبل آپس میں سرحدی تنازعہ ہوا کئی ہلاک ہوئے فورا مرکزی حکومت حرکت میں آئی اور معاملہ رفع دفع کرلیا؛ لیکن یہاں ایک ہفتے سے تری پورہ جل رہا ہے جنونی ہندو تانڈو مچا رہے ہیں، قرآن مقدس کی توہین کی جارہی ہے، جلتے اوراق کی تصویریں دلوں کو چیر رہی ہیں؛ لیکن ملک کا وزیر اعظم بیرون ممالک کے دورے پر ہے اور وزیر داخلہ یوپی الیکشن کی ریلیوں میں مصروف ہے اور سیکولر پارٹیاں جو کسانوں اور دلتوں کی اموات پر ان کے گھر جاکر تسلی کے دوبول بولتی ہیں یہاں ندارد ہیں کسی کی بھی ہمت نہیں کہ وہ تری پورہ جائے اور مسلمانوں کی دادرسی کرے۔ مسلم تنظیم قنوت نازلہ کے اہتمام کی اپیلیں کررہی ہیں اور حسب سابق جب تری پورہ مکمل جل کر برباد ہوجائے گا تب وہ انہیں راشن و مکانات فراہم کرکے اخباروں میں بازآبادکاریوں فوٹو فخریہ شائع کرائیں گی۔ تری پورہ کا زخم بھرے گا پھر کہیں نہ کہیں دوسرا فساد ہوگا اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا قیادت کی جے ہوتی رہے گی، بااثر شخصیات میں شمار ہوتے رہیں گے؛ لیکن عام مسلمانوں کی قسمت میں جلنا لٹنا بکھرنا اور جیلوں کی سلاخوں میں رہنا ہی لکھا ہے۔ کیا سیکولر پارٹیوں اور مسلم تنظیموں کو مسلم عوام اسی لئے سپورٹ کرتے ہیں کہ جب ہمارے گھر جلائے جائیں، جب ہمیں برباد کیا جائے تو آپ خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں۔؟
سوال ہے کہ ملک کی آزادی کو اتنے سال ہوگئے آخر مسلم رہنماوں و قائدین نے اب تک اس جانب پیش رفت کیوں نہیں کی۔ کیوں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے ابتر و بدتر ہے، کیوں نہیں انہیں معاشی تعلیمی سطح پر اٹھایا گیا، کیوں اس جانب توجہ نہیں دی گئی کہ مسلمان فسادات کے شکار نہ ہوں، آخر کیوں انہیں بے یارومددگار چھوڑدیا گیا جو آج تک سیکولرازم کا جنازہ اپنے مجبور کاندھوں پر اٹھائے پھر رہے ہیں۔ بڑے بڑے نام ہیں، مسلم لیڈروں کی پوری دنیا میں آن بان شان اور پہچان ہے، وہ عالمی پلیٹ فارم پر جینوا جاکر باتیں رکھ سکتے ہیں، سعودی حکومت کو علماء پر مظالم کے خلاف برا بھلا کہہ سکتے ہیں؛ لیکن اپنے ہی ملک میں برسوں سے مارے جارہے مسلمانوں کیلئے آگے نہیں آسکتے، یہاں بھی آگے وہی ہیں جنہیں اسکول و کالج کے مذہب بیزار اسٹوڈنٹس کہہ کر ان کی اہانت کی گئی۔ ہماری قیادت کو اس جانب توجہ دینی ہوگی۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ محض جز وقتی ریلیف کے کام کو قوم کے درد کا مداوا نہیں کرسکتے ہیں؛ بلکہ اسے مضبوط سہارے کی ضرورت ہے جو بیانات سے آگے بڑھ کر عملی میدان میں قوم کی رہنمائی کرے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)