کابل :(ڈی ڈبلیو)
افغان دارالحکومت کابل میں کل جمعرات تیس جون سے پورے ملک سے آنے والے مسلم مذہبی رہنماؤں کا ایک ایسا تین روزہ اجتماع جاری ہے، جسے قومی شوریٰ کا نام دیا گیا ہے۔ اس شوریٰ کے اجلاس میں تین ہزار سے زائد علماء حصہ لے رہے ہیں۔
جمعہ یکم جولائی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس شوریٰ سے طالبان سپریم کمانڈر ہیبت اللہ اخوند زادہ نے بھی خطاب کیا۔ اخوند زادہ شاذ و نادر ہی منظر عام پر آتے ہیں اور انہیں کئی برسوں سے کسی عوامی مقام پر یا تقریب میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ طالبان کی اہتمام کردہ اس شوریٰ کا اجلاس بہت ہی کم نظر آنے والا ایسا موقع ثابت ہوا کہ سپریم کمانڈر ہیبت اللہ اخوند زادہ نے اس میں ایک تفصیلی سیاسی خطاب بھی کیا۔
طالبان کا اقتدار میں آنا ‘باعث فخر
افغان طالبان کے اعلیٰ ترین نظریاتی رہنما نے اپنے خطاب میں کہا کہ گزشتہ برس موسم گرما میں مسلسل پیش قدمی کرتے ہوئے طالبان کا کابل پر قابض ہو جانا اور پھر ان کا پورے ملک میں ایک بار پھر اقتدار میں آ جانا ایک ‘خوش کن‘ اور ‘باعث فخر‘ بات تھی۔ ہیبت اللہ اخوند زادہ جنوبی افغانستان کے شہر قندھار میں رہتے ہیں اور انہوں نے صرف مردوں پر مشتمل اس شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کے لیے خاص طور پر کابل تک کا سفر کیا۔
بہت قدامت پسند مذہبی سوچ کے حامل افغان طالبان کے سپریم کمانڈر نے اپنے خطاب میں کہا، ’’افغانستان کو آج قومی سطح پر ایسی وحدت اور اتحاد کی اشد ضرورت ہے، جن کے ذریعے ملک کو آگے بڑھایا جا سکے۔‘‘
شرکاء کا اعلان تقلید
اس اجلاس میں تین ہزار سے زائد شرکاء نے اپنے ہاتھ اٹھا کر طالبان کے سپریم کمانڈر کے طور پر ہیبت اللہ اخوند زادہ کی تقلید کا اعلان بھی کیا۔ بعد ازاں اخوند زادہ نے کہا، ’’افغان جہاد کی کامیابی صرف افغان عوام ہی کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے بھی فخر کی بات ہے۔‘‘
سرکاری خبر رساں ادارے کی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے نیوز ایجنسی روئٹرز اور خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اپنے مراسلوں میں لکھا ہے کہ اخوند زادہ نے اپنی تقریر میں کہا،’’شکر ہے کہ اب ہم ایک آزاد ملک ہیں۔ غیر ملکیوں کو ہمیں حکم نہیں دینا چاہییں۔ اپنے نظام میں ہم اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔‘‘
افغان طالبان کے اعلیٰ ترین رہنما نے مزید کہا،’’ہم امن اور سلامتی چاہتے ہیں اور ہمارے ہمسایوں کو کسی بھی قسم کا کوئی ڈر خوف نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارا تعلق اسی ایک خدا سے ہے، جس کا حکم ہم مانتے ہیں۔ ہم دوسروں کے احکامات کی پیروی نہیں کر سکتے، جنہیں خدا پسند نہیں کرتا۔‘‘
افغان معیشت کی تعمیر نو
کابل میں افغان مذہبی رہنماؤں کی شوریٰ کا یہ اجلاس جمعرات تیس جون کو شروع ہوا تھا۔ اجلاس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں ہیبت اللہ اخوند زادہ نے یہ بھی کہا کہ بیرونی امداد سے ملکی معیشت کی تعمیر نو نہیں کی جا سکتی بلکہ یہ افغان عوام کو غیر ملکی امداد پر اور زیادہ انحصار کا عادی بنا دے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس بیرونی ممالک میں مقیم افغان کاروباری شخصیات اور تاجروں کو واپس وطن لوٹنا چاہیے اور اندرون ملک سرمایہ کاری کرنا چاہیے تاکہ ملک اقتصادی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے۔
طالبان کی افغان خواتین اور لڑکیوں سے متعلق پالیسیاں
افغانستان میں گزشتہ برس موسم گرما میں جب سے طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے ہیں، ان کی حکومت خواتین اور لڑکیوں کے حقوق بتدریج محدود ہی کرتی جا رہی ہے۔ اس وجہ سے ملک کی تقریباً نصف آبادی کی روزمرہ کی معاشرتی اور اقتصادی زندگی میں شرکت بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔
کئی بڑے بین الاقوامی امدادی اداروں کا کابل میں طالبان کی حکومت سے مطالبہ ہے کہ افغان خواتین اور بچیوں کے تعلیم اور روزگار کے حقوق سمیت جملہ بنیادی حقوق بحال کیے جانا چاہییں اور کابل کے لیے بیرونی امداد ایسا ہونے پر بحال کی جائے گی۔
کئی سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد طالبان افغانستان کو ایک بار پھر اسی طرف لے کر جانا چاہ رہے ہیں، جس طرف وہ ملک کو اپنے گزشتہ دور اقتدار میں لے گئے تھے۔