کابل :(ایجنسی)
افغان طالبان نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں تمام ٹی وی چینلز پر آنے والی خواتین کو چہرے پر پردہ یا نقاب کرنے کا کہا گیا تھا۔ افغانستان میں گزشتہ سال اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان نے سول سوسائٹی پر بہت سی پابندیاں عائد کر دی ہیں، جن میں سے اکثر نے خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر مزید قدغنیں لگا دی ہیں۔
اس مہینے کے آغاز میں افغانستان کے سپریم لیڈر نے خواتین کے لیے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے مطابق خواتین کو عوامی مقامات پر بشمول ان کے چہرے پورے جسم کو برقعے سے ڈھانپنے کا کہا گیا تھا۔
طالبان کی نیکی کی ترویج اور برائی کی روک تھام کی وزارت نے خواتین ٹی وی پریزینٹرز کو بروز ہفتہ تک مکمل نقاب کے ساتھ ٹی وی پر نشریات پیش کرنے کے حکم کی پیروی کرنے کا حکم دیا۔ اس سے پہلے خواتین کو معمول کے لباس کے ساتھ صرف اسکارف پہننے کی ضرورت ہوتی تھی۔ تاہم، نشریاتی ادارے طلوع نیوز، شمشاد ٹی وی اور ون ٹی وی نے ہفتے کے روز شو میں خواتین اینکرز کے چہروں کو چھپائے بغیر لائیو پروگرام نشر کیے۔
شمشاد ٹی وی کے ہیڈ آف نیوز عابد احساس نے کہا، ’’ہماری خواتین ساتھیوں کو تشویش ہے کہ اگر وہ اپنے چہرے کو ڈھانپتی ہیں، تو اگلے حکم میں انہیں کام کرنے سے روکنے کے لیے کہا جائے گا۔‘‘ انہوں نے بتایا، ’’یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ابھی تک اس حکم پر عمل نہیں کیا۔‘‘
نیکی کی ترویج اور برائی کی روک تھام کی وزارت کے ترجمان محمد صادق عاکف مہاجر کا کہنا ہے کہ خواتین طالبان کی ہدایت کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ عاکف کا کہنا ہے، ’’اگر وہ اس حکم نامے کی تعمیل نہیں کرتی ہیں تو ہم متعلقہ مینیجرز اور سرپرستوں سے بات کریں گے۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’کوئی بھی شخص جو کسی خاص نظام اور حکومت کے تحت رہتا ہے اسے اس نظام کے قوانین اور احکامات کو ماننا ہوتا ہے، اس لیے انہیں حکم پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔‘‘
طالبان نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر خواتین سرکاری ملازمین نئے ڈریس کوڈ پر عمل کرنے میں ناکام رہیں تو انہیں ملازمت سے نکال دیا جائے۔ حکومتی محکموں میں کام کرنے والے مردوں کی بیویاں یا بیٹیاں اگر اس حکم نامے کی تعمیل نہیں کرتیں تو انہیں بھی معطلی کا خطرہ ہے۔ عاکف کے مطابق اگر حکم پر عمل نہیں کیا گیا تو میڈیا مینیجرز اور منحرف خواتین اینکرز کے مرد سرپرستوں پر بھی جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
طالبان کی گزشتہ حکومت کے ختم ہونے کے بعد 20 سالوں میں قدامت پسند دیہی علاقوں میں بہت سی خواتین نے برقع پہننا جاری رکھا۔ تاہم، زیادہ تر افغان خواتین، بشمول ٹی وی پریزینٹرز، نے اسلامی ہیڈ اسکارف کا انتخاب کیا۔ طالبان کے حکم کے بعد ٹیلی وژن چینلز نے پہلے ہی ایسے ڈراموں اور سوپ اوپیرا وغیرہ کو نشر کرنا بند کر دیا ہے جن میں خواتین کو دکھایا گیا ہے۔