نئی دہلی: راجستھان کی مشہور درگاہ اجمیر شریف کے سروے کے مطالبے کے بعد اب درگاہ کے قریب واقع ‘ڈھائی دن کا جھونپڑا’ مسجد کے سروے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس مسجد کو تاریخی سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ ملک کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے۔ یہ مسجد درگاہ سے 5 منٹ کی دوری پر ہے اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی ) کی طرف سے ایک محفوظ یادگار ہےمعلوم ہو کہ حال ہی میں ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گپتا نے مقامی عدالت میں عرضی دائر کرتے ہوئے درگاہ شریف کے سروے کا مطالبہ کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اس کے نیچے پہلےشیو مندر تھا۔ اس سلسلے میں عدالت نے اقلیتی امور کی وزارت، اے ایس آئی اور اجمیر درگاہ کمیٹی کو 27 نومبر کو نوٹس جاری کیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، اب اجمیر کے ڈپٹی میئر نیرج جین نے ‘ڈھائی دن کا جھونپڑا’ کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس مسجد میں سنسکرت کالج اور مندر ہونےکے ثبوت ملے ہیں اسے حملہ آوروں نے اسی طرح تباہ کیا جس طرح انہوں نے کہا کہ نالندہ اور تکشلا جیسے تاریخی تعلیمی مقامات کو تباہ کیا تھا۔ جین کے مطابق مسجد پر حملہ کرکے ثقافت، تہذیب اور تعلیم پر حملہ کیا گیا
جین نے دعویٰ کیا کہ اے ایس آئی کے پاس اس جگہ سے ملی 250 سے زیادہ مورتیاں ہیں۔ اور اس جگہ پر سواستک، گھنٹیاں اور سنسکرت اشلوک لکھے ہوئے ہیں۔ ان کا مزید کہناہے کہ یہ بنیادی طور پر ایک ہزار سال سے زیادہ پرانا ہے۔ اور تاریخی کتابوں میں بھی اس کا ذکر آیا ہے۔ جین نے پہلے بھی ایسا مطالبہ کیا تھا کہ اس جگہ پر موجودہ مذہبی سرگرمیوں کو روکا جائے۔ اور اے ایس آئی اس بات کو یقینی بنائے کہ کالج کی پرانی رونقیں واپس آئیں اے ایس آئی کے مطابق مطابق، امکان ہے کہ یہاں ڈھائی دن کا میلہ (عرس) لگتا تھا۔ اسی وجہ سے اسے ‘ڈھائی دن کا جھونپڑا’ کا نام دیا گیا۔ اس کا ذکر ہرولاس شاردا کی کتاب (اجمیر: ہسٹورک اینڈ ڈسکرپٹو) میں بھی بھی ملتا ہے ہر ولاس شاردا نے 1911 میں لکھا ہے، ‘یہ نام 18ویں صدی کے آخری سالوں میں آیا۔ جب فقیروں نے اپنے مذہبی پیشوا پنجاب شاہ کی وفات کا ڈھائی روزہ عرس منانے کے لیے یہاں جمع ہونا شروع کیا۔ شاہ پنجاب سے اجمیر آئے تھے
مسجد کے بارے میں اے ایس آئی کا کہنا ہے کہ اس کی تعمیر 1200 عیسوی کے لگ بھگ قطب الدین ایبک نے شروع کی تھی، جس میں نقاشی کیے ہوئے ستون استعمال کیے گئے تھے۔ ستون والا (عبادت) خانہ نو آکٹونل (8 زاویہ والے حصوں میں منقسم) ہے اور مرکزی محراب کے اوپر دو چھوٹے مینار ہیں کوفک اور ٹگرا نوشتہ جات کے ساتھ کھدی ہوئی تین مرکزی محرابیں اسے ایک شاندار فن تعمیر کا درجہ دیتی ہیں ـ