تحریر: نیلم پانڈے
اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے پچھلے کچھ دن بہت ہی ایکشن سے بھرے رہے ہیں۔ اسمبلی انتخابات میں ایک ماہ سے بھی کم وقت باقی ہے، یوگی آدتیہ ناتھ کابینہ کے تین اعلیٰ وزراء سمیت کئی لیڈروں کے استعفوں نے مایوس بی جے پی کو ڈیمیج کنٹرول کی حالت میں ڈال دیا ہے۔
استعفیٰ دینے والے سبھی لیڈروں نے بی جے پی پر دلتوں، پسماندہ طبقات، کسانوں اور بے روزگار نوجوانوں کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا ہے۔
بی جے پی کو اب نہ صرف اس منفی پی آر اور کسانوں کی تحریک سے ہونے والے نقصان پر قابو پانا ہے بلکہ انتخابات میں اعلیٰ ذات اور پچھڑی ذات کے درمیان تصادم کو لے کر زمینی سطح پر ابھرنے والے خدشات کو بھی دور کرنا ہے۔
یہ پورا پیش رفعت بی جے پی کے لیے ماضی کی یاد دہانی کی طرح ہے، کیونکہ اس بار سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو اپنی سیاسی چالوں سے بی جے پی کو ہرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے الیکشن سے عین قبل دوسری پارٹیوںکو پارٹی میںشامل کرنا ہے۔
پچھلے کچھ دنوں کی پیش رفت کسی فلمی اسکرپٹ سے کم نہیں: ایم ایل اے کے تقریباً ایک جیسی زبان میں لکھے گئے استعفے چند گھنٹوں کے اندر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگے، اس کے بعد وزیر؍ایم ایل اے کی تصویر کے ساتھ اکھلیش یادو ایس پی میں شامل ہونے کا خیرمقدم کرتے ہوئے ٹویٹ کیا۔ اس کے ساتھ ہیش ٹیگ ’میلہ ہوبے‘ کا استعمال کیا گیا۔ سب سے بڑی بات یہ سب ایسے وقت ہو رہا تھا جبکہ اسی دن بی جے پی کی مرکزی قیادت اسمبلی انتخابات کے لیے امیدواروں کے ناموں کوحتمی شکل دینےمیں مصروف تھی۔
آن لائن استعفوں کے بعد بی جے پی نے بھی سوشل میڈیا پر ان لیڈروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ ذمہ داری نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ کو دی گئی ہے تاکہ وہ لیڈروں سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی اپیل کریں۔
…جب استعفوں کی جھڑی لگ گئی
11 اور 13 جنوری کے درمیان 72 گھنٹوں کے وقفے میں، بی جے پی کے دس ایم ایل ایز نے – بشمول آدتیہ ناتھ کابینہ کے تین وزراء -اس کے علاوہ اتر پردیش میں اتحادی پارٹی اپنا دل کے دو ایم ایل اے نے پارٹی چھوڑ دی۔
بی جے پی سے مستعفی ہونے والے دس ایم ایل ایز میں ایک مشترک بات یہ تھی کہ وہ سبھی دوسری پارٹیوں سے بی جے پی میں شامل ہوئے تھے ۔ نو بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) سے اور ایک کانگریس سے۔ اس اقدام نے بی جے پی کے اندر بہت سے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے کہ کیا پارٹی کی ‘’درآمد‘ پالیسی اب کام نہیں کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر، 2021 کے مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے بعد، ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) میں واپسی کے لیے بی جے پی کے بہت سے رہنماؤں کی قطارلگ گئی تھی۔
یوپی بی جے پی میں بھگدڑ او بی سی کے بااثر رہنما اور وزیر سوامی پرساد موریہ کے استعفیٰ سے شروع ہوئی، جس کے بعد ان کے قریبی تین اراکین اسمبلی بھگوتی ساگر، روشن لال ورما اور برجیش پرجاپتی نے اسی دن استعفیٰ دے دیا۔ اس کے فوراً بعد ریاستی وزیر دارا سنگھ چوہان اور ایم ایل اے اوتار سنگھ بھڈانہ نے بھی اسی راستے پر چل پڑے۔ جمعرات کو یوپی کے ایک اور وزیر دھرم سنگھ سینی اور بی جے پی کے تین ایم ایل اے ونے شاکیہ، مکیش ورما اور بالا اوستھی نے پارٹی چھوڑ دی۔
ایک کے بعد ایک استعفوں نے آدتیہ ناتھ حکومت اور اس کی قیادت دونوں کے کام کاج پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ بی جے پی چھوڑنے والوں نے نہ صرف پارٹی کو پسماندہ مخالف قرار دیا بلکہ آدتیہ ناتھ حکومت کے ذریعہ ان جیسے لیڈروں کو نظر انداز کرنے کا مسئلہ بھی اٹھایا۔
بی جے پی قیادت کی کنفیوژن بڑھ گئی
تازہ ترین پیش رفت کے دور رس اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے، بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر نے آگاہ کیا کہ اگر اس مسئلہ کو جلد حل نہیں کیا گیا تو، استعفوں سے یہ تاثر پیدا ہوسکتا ہے کہ بی جے پی صرف ’اعلیٰ ذات‘ کے مفادات کی پرواہ کرتی ہے۔ اس سے الیکشن لڑنے کا سارا طریقہ بدل سکتا ہے۔
بی جے پی نے 2017 کے انتخابات میں 403 رکنی اتر پردیش اسمبلی میں 303 سیٹیں جیتی تھیں۔
جن لیڈروں نے استعفیٰ دیا ہے ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی غیر یادو او بی سی ذاتوں میں مضبوط اثر و رسوخ ہے۔ انتخابی نقطہ نظر سے یہ حقیقت بہت اہم ہے کیونکہ 2017 کے انتخابات میں بی جے پی کی شاندار جیت کا سہرا بڑی حد تک غیر یادو او بی سی ووٹ بینک کی حمایت سے منسوب ہے۔ تین او بی سی وزراءکے سماج وادی پارٹی میںشامل ہونےاور اوپی راج بھر کی قیادت والی سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی (ایس بی ایس پی) نے پہلے ہی اس کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے، بی جے پی کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ بی جے پی اب تک یوپی میں 2022 کے اسمبلی انتخابات میں 325 سیٹیں جیتنے کا دعویٰ کرتی رہی ہے۔
آگے کا راستہ بی جے پی کے لیے قدرے مشکل ہو گیا ہے، کیونکہ پارٹی کے رہنما خود دعویٰ کرتے ہیں کہ کسانوں کی تحریک نے مغربی اتر پردیش میں پارٹی کے امکانات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ رہنماؤں نے کہا کہ اگرچہ نریندر مودی حکومت نے ایک سال کے طویل احتجاج کے بعد تینوں زرعی قوانین کو منسوخ کر دیا ہے، لیکن پارٹی کے تئیں کسانوں کی ناراضگی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔
بی جے پی کے بہت سے لیڈروں کا خیال ہے کہ اب ایک جوابی حکمت عملی وضع کرنے کا وقت آ گیا ہے، جس میں سماج وادی پارٹی کے لیڈروں کو لانا شامل ہے (کچھ پہلے ہی شامل ہو چکے ہیں)۔ بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ’وہ لوگ جنہوں نے استعفیٰ دیا وہ موریہ کے اتحادی تھے، اس لیے انہیں بہرحال جانا پڑا۔‘ ان میں سے کچھ کو ٹکٹ بھی نہیں ملناتھا۔ یہ سیاسی موقع پرستی کے سوا کچھ نہیں اور عوام اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ ان سب کے باوجود بی جے پی کی جیت یقینی ہے۔
بی جے پی کے قومی ترجمان آر پی۔ سنگھ نے کہا، "جن لیڈروں نے استعفیٰ دیا ہے، انہیں ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ انہیں اس الیکشن میں ٹکٹ نہیں ملے گا۔ ساتھ ہی، بہت سے لوگ اپنے بچوں اور خاندانوں کے لیے ٹکٹ چاہتے تھے، جو بی جے پی میں دستیاب نہیں ہے۔ انہوں نے پارٹی پر دلتوں، او بی سی اور نوجوانوں کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا ہے۔ لیکن وہ اب تک یہ کہنے کا انتظار کیوں کر رہے تھے؟ یہ سیاسی موقع پرستی کے سوا کچھ نہیں۔
ان تمام استعفوں کے درمیان بی جے پی کے لیے یہ یقینی طور پر راحت کی بات تھی کہ سہارنپور کے بیہت سے کانگریس ایم ایل اے نریش سینی اور فیروز آباد کے سرسا گنج سے سماج وادی پارٹی کے ایم ایل اے ہریوم یادو اور سماج وادی پارٹی کے سابق ایم ایل اے دھرم پال یادو نے پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ پارٹی نے ڈیمیج کنٹرول بھی شروع کر دیا ہے۔ اس کے تحت سینئر لیڈروں کو اختلاف رائے رکھنے والوں سے رابطہ کرنے اور ان کی شکایات سننے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
(بشکریہ : دی کوئنٹ ہندی)