تحریر :اروند کمار
اکھلیش یادو کی قیادت میں سماج وادی پارٹی (ایس پی) اتر پردیش میں بی جے پی کی اہم حریف بن کر ابھری ہے۔ یہ پارٹی اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو سیاسی اقتدار کے سنگھاسن سے ہٹانے کے لیے تین جہتی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے۔
جیتنے والے امیدواروں کی تلاش
ایس پی کی حکمت عملی کا پہلا ہدف ایسے امیدواروں کو تلاش کرنا ہے جو الیکشن جیت سکیں اور پراعتماد ہوں۔ اس کے لیے تین معیارات مقرر کیے گئے ہیں۔ اسمبلی حلقے میں امیدوار کی مقبولیت، حلقے کے ووٹروں میں ذات پات کا فارمولیشن اور پارٹی سے وفاداری۔ اکھلیش یادو نے یہ حکمت عملی مدھیہ پردیش اور کرناٹک میں الیکشن کے بعدہوئے سیاسی کھیل کےمدنظر اپنائیہے، جہاں بی جے پی نےاپوزیشن کا ایم ایل اے کے بڑے پیمانے پردل- بدل کراکے اپنی سرکار بنالی تھی۔ ایس پی میں اب امیدواروں کی وفاداری نہ صرف پارٹی کےتئیں دیکھا جار ہا ہےبلکہ انہیں اکھلیش یادو کے ساتھ بھی وفادار ہونا چاہئے۔ اس وفاداری کے امتحان نے رگھوراج پرتاپ سنگھ عرف راجہ بھیا جیسے لیڈروں کو ناراض کر دیا ہے، جنہوں نے اپنا جنستہ دل (لوک تاتنترک) بنایا ہے اور وہ ایس پی کے ساتھ اتحاد کرنا چاہتے ہیں۔ طویل عرصے سے ملائم سنگھ یادو کے قریب رہنے کے باوجود راجہ بھیا اکھلیش یادو کا اعتماد جیتنے میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔
پارٹی کے سینئر عہدیداروں نے اگست میں بتایا تھا کہ وہ ایسے امیدواروں کا پتہ لگانے کے لیے حیدرآباد میں دو سروے ایجنسیوں کی خدمات لے رہے ہیں۔ امیدواری کی جانچ کرنےکےلیے پارٹی نے ان سے عرضی اوراپنا بایو ڈاٹا بھیجنےکو کہاہے۔ لیکن موجودہ ایم ایل ایز سے ایسی مانگ نہیں کی گئی ہے۔ یعنی ان میں سےزیادہ تر کودوبارہ ٹکٹ دیاجاسکتا ہے۔
انتہائی پسماندہ ذاتوں کے ووٹروں پر زور
ایس پی کی حکمت عملی کا دوسرا سب سے اہم فارمولہ انتہائی پسماندہ ذاتوں (موسٹ بیک ورڈ کاسٹ) کے ووٹروں کو اپنے حق میں کرنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اتر پردیش میں کسی بھی پارٹی کی جیت کو یقینی بنانے میں ان ذاتوں کے ووٹروں کا بڑا ہاتھ ہے کیونکہ وہ کسی پارٹی سے بندھے ہوئے نہیں ہیں۔ اونچی ذات کے ووٹرز بی جے پی کے، جاٹو؍چمار بی ایس پی کےاور یادو ایس پی کے مضبوط ووٹر سمجھے جاتے ہیں۔ پہلے ایم بی سی ووٹروں کو بی ایس پی کے مضبوط حامی سمجھا جاتا تھا، لیکن 2014 کے بعد انہوں نے بی جے پی کے ساتھ ہوگئے۔ اس بار ایس پی اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔
اس کے لیے ایس پی نے تین حکمت عملی بنائی ہے۔ پہلے یادو اور مسلمان ہی پارٹی کی ضلع اکائی کے صدر اور جنرل سکریٹری ہوا کرتےتھے۔ ایک عہدہ پر کوئی یادو لیڈرہوتا، تودوسرا عہدہ ایک مسلم لیڈر کو دیاجاتا تھا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اکھلیش یادو نے انتہائی پسماندہ ذاتوں کے لیڈروں کو جگہ دینے کے لیے اس پالیسی میں تبدیلی کی ہے۔ ایس پی نے دوسری حکمت عملی چھوٹی’یاترائیں‘ نکالنے کی بنائی ہے۔ پردیش میں نریندرمودی کےذریعہ انتخابی مہم شروع کرنے سے پہلے ہی ایس پی کےسنجیو چوہان، نریش اتم پٹیل، اندرجیت سروج، مٹھائی لال بھارتی، کیشودیو موریہ جیسے لیڈروںنےپردیش کےکئی حصوںمیں یاتراؤں کا انعقاد شروع کردیاتھا۔ آخری حکمت عملی پچھلی دو دہائیوں میں ابھرنے والی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں سے انتخابی گھٹن بندھن کرنےکی ہے۔ اوم پرکاش راج بھر کی سہیل دیو سماج پارٹی کے ساتھ گھٹن بندھن اس انتخابی حکمت عملی کی ہی ایک مثال ہے ۔
مخصوص انتخابی حلقہ
ایس پی کی حکمت عملی کا تیسرا ہدف ہےزیادہ سے زیادہ ریزرو سیٹوں کو جیتنا ۔ پارٹی پہلے ان سیٹوں پر توجہ نہیں دی تھی کیونکہ ایسی سیٹیں بی ایس پی کا گڑھ ہوتی تھیں۔ بی ایس پی کے کمزور پڑتے ہیبی جے پی ان پر مضبوط دعویدار بن گئی۔ حقیقتمیں بی جے پی نے ریزرو سیٹیوں کو جیتنے کے معاملے میں زبردست برتری حاصل کی ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں اس نے 85 ریزرو سیٹوں میں سے 75 پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اب ان میں سے زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتنے کے لیے ایس پی بی ایس پی کے بااثر لیڈروں کا ’درآمد‘ کر رہی ہے۔ ابھی تک ایس پی ایسے کئی بی ایس پی لیڈروں کو اپنے پالے میں لا چکی ہے۔ ان میں نمایاں نام ہیں- مٹھائی لال بھارتی، اندرجیت سروج، تریبھون دت، تلک چندر اہیروار، کے کے گوتم، سرویش امبیڈکر، مہیش آریہ، یوگیش ورما، اجے پال سنگھ جاٹو، ویر سنگھ جاٹو، فیرن لال اہیروار، رمیش گوتم، ودیا چودھری، انل اہیروار، سی ایل پاسی وغیرہ یہ لیڈر بی ایس پی میں ایم ایل اے، ایم پی، وزیر اور پارٹی کے سینئر کارکن رہ چکےہیں۔ ایس پی نے ان لیڈروں کو مخصوص سیٹوں سے الیکشن لڑنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس سے پہلے ایس پی ان سیٹوں پر زیادہ تر غیر جاٹو؍چمار امیدواروں کو کھڑا کرتی تھی۔ لیکن اب بی جے پی نے یہ حکمت عملی اپنا لی ہے۔ اس لیے ایس پی کو ان سیٹوں پر جاٹو؍چمار امیدوار کھڑا کرنے پر مجبور کیا ہے۔ بی ایس پی پچھلے 10 سالوں سے اقتدار سے باہر ہے، اس لیے اس کے لیڈر اپنی جیت کے امکانات کو بڑھانے کے لیے پالا بدلنے کوبے تاب ہیں، اس کے ساتھ ہی ایس پی نے مٹھائی لال بھارتی کی قیادتمیں بابا صاحب امبیڈکر واہنی بھی تشکیل دی ہےجس کی مدد سے درج فہرست ذات کے ووٹروںکو اپنے ساتھ جوڑ سکے۔
ایس پی کی حکمت عملی کو چیلنجز
ایس پی کو اپنی مذکورہ حکمت عملی کے لیے تین بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اولاً، پارٹی کی تنظیم کبھی کیڈر پر مبنی نہیں رہی، یہ ایک پارٹی رہی ہے جس کی سرپرستی اور نیٹ ورک ہے۔ ملائم اور ان کے بھائی شیو پال سنگھ یادو کے پاس مقامی لیڈروں کا بڑا نیٹ ورک تھا۔ اکھلیش یادو کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ دوسرا، بی جے پی کے برعکس، ایس پی کے پاس ہر حلقے کے ووٹروں کی ذات اور برادری کے مساوات کے بارے میں تفصیلی ڈیٹا نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے ٹکٹوں کی عملی طور پر تقسیم اور انتخابی حکمت عملی بنانے میں مشکل پیش آتی ہے۔ تیسرا، پچھلی اکھلیش یادو حکومت کے کچھ فیصلے ایس پی پر بہت زیادہ بھاری پڑرہے ہیں، خاص طور پر ایس سی؍ایس ٹی ملازمین کی تنزلی اور ان کی بہبود کے لیے خصوصی اسکیموں کو بند کرنے کا فیصلہ۔ 2012 میں اقتدار میں آنے کے بعد، اکھلیش یادو نے ایس سی؍ایس ٹی ملازمین کی تنزلی اور بی ایس پی کے جاٹو؍چمار ووٹروں کو نقصان پہنچانے کے لیے خصوصی فلاحی اسکیموں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس فیصلے سے غیر جاٹو؍چمار ایس سی؍ایس ٹی ووٹروں کو بھی نقصان پہنچا جنہوں نے ذات پات کی دشمنی کی وجہ سے ایس پی کو ووٹ دیا تھا۔ اس لیے انہوں نے بی جے پی کا رخ کیا۔ یہ مسئلہ ایس سی ؍ ایس ٹی دانشوروں کی میٹنگ میں بھی سامنے آیا، جس کا اہتمام اکھلیش یادو نے کیا تھا۔ جس پر اکھلیش یادو نے وعدہ کیا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو ‘’اصلاحی اقدامات‘کریں گے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیسے؟
اب اکھلیش یادو اپنی نئی حکمت عملیوں سے یوگی آدتیہ ناتھ پر حملہ کر رہے ہیں کہ انہوں نے ایم بی سی اور دلت برادریوں کو نقصان پہنچایا ہے، تو یوگی ووٹروں کو یاد دلا رہے ہیں کہ اکھلیش یادو حکومت نے بھی کیا کیا تھا۔ ان دونوں میں اب وہی کامیاب ہوسکیں گے کہ جو سب سے پسماندہ ذاتوں اور دلت ووٹروں کو اس بات پر قائل کر سکے گا کہ ان کے لیے سب سے کم نقصان دہ کون ہے۔
(بشکریہ: دی پرنٹ )