تحریر: آدتیہ مینن
’’اس ملک میں جتنی نفرت قصاب کے لیے ہے، اتنی ہی عزت کلام کے لیے ہے‘‘۔ حال ہی میں ریلیز ہوئی فلم سوریہ ونشی میں جب اکشے کمار یہ ڈائیلاگ بولتے ہیں، تو وہ بتانا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی دوہی خاصیتیں ہوتی ہیں۔ یا تو وہ قصاب ہو سکتا ہے یا کلام۔اس کے درمیان میں کچھ نہیں۔ فلم اسی کو پروموٹ کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔
ہدایت کار روہت شیٹی نے بھلے ہی ’سوریہ ونشی‘ کو ’سنگھم-سمبا‘ پولیس یونیورسل کے سیکوئل کے طور پر پیش کیا ہو، لیکن حقیقت میں ’سوریہ ونشی‘ کا اس سیریز سے تعلق صرف اتنا ہے کہ فلم میں اجے دیوگن اور رنویر سنگھ گیسٹ اپیرینس کی ہیں۔ ’ سوریہ ونشی ‘ روہٹ شیٹی کی پہلی فلمی ’ زمین ‘ جیسی ہے ، جو 2003 میں ریلیز ہوئی تھی اس وقت این ڈی اے سرکار مرکزمیں کرسی پر قابض تھی ۔
’زمین‘ میں کینوس چھوٹا تھا (اور بجٹ بھی)۔ کاریں بھی کچھ کم اچھالی – پلٹائی گئی تھیں،لیکن اس کا سیاسی پیغام بھی ’ سوریہ ونشی‘ جیساہی تھا۔ راشٹر واد کو ’ مردانگی ‘ سے جوڑنے کے علاوہ فلم کوئی دوسرے تھیم پر بھی مبنی تھی ۔ ’ بھارتیہ دشمن‘ ،’سلیپر سیل جو آپ کے آس پاس کوئی بھی ہوسکتا ہے ۔‘ اور بے شک ، ’ ایک اچھا ہندوستانی مسلم کون ہے ؟‘
’زمین‘ میں، ’’اچھے مسلمان بمقابلہ برے مسلمان‘ کی داستان ایک مسلم کردار کے ذریعے تیار کی گئی تھی۔ پنکج دھیر نے یہ کردار ادا کیا تھا۔ وہ ایک ہائی جیک ہونے والے ہندوستانی جہاز کا کپتان تھا جو ہائی جیکروں کویہ لیکچر دیتے ہیں کہ ’’ اصل اسلام‘‘ کیا ہوتا ہے۔
’سوریہ ونشی‘ میں یہ لیکچر کسی مسلمان کردار نے نہیں، بلکہ اکشے کمار نے دیتے ہیں۔ اکشے کمار کا کردار کئی مناظر میں ’’برے مسلمان‘‘ کو ’’اچھے مسلمان‘‘ کے بارے میں بتاتا ہے ۔
ایک منظر میں ان کے لیے ’’اچھا مسلمان‘‘ سابق ساتھی اور ریٹائرڈ پولیس اہلکار نعیم خان ( راجیندر گپتا) ہے، جس نے تین دہائیوں تک خدمت کی اور جوکہ حال ہی میں اجمیر شریف سے لوٹا ہے ۔ (اچھے مسلمان کی فرقہ وارانہ شرط )
صفا چٹ چہرے والے، جس پر کوئی مذہبی شناخت نظر نہیں آتی، ایسے سابق پولیس اہلکار سےبالکل برعکس ہے، ’’ برا مسلمان‘‘ قادر عثمانی ، یعنی گلشن گروور ۔ عثمانی ایک دقیانوسی ٹوپی والے مولوی ہیں، جس کی لمبی داڑھی ہے ۔ مونچھیں نہیں ہے ، پیشانی پر نماز کے نشان۔ عثمانی ایک چیریٹی فاؤنڈیشن چلاتا ہے اور ایک مسلمان بستی میں اس کا بول بالا ہے۔
یوں فلم میں اکشے کمار اس بات کا ذکر بھی کر سکتے تھے کہ کلام کی عزت کی جانی چاہئے ، واضح رہے کہ کچھ وقت پہلے کلام کو مہنت نرسمہا نند سرسوتی نے ’ جہادی‘ کہا تھا اور وہ کوئی عام انسان نہیں سادھو ؤں کے سب سے بڑے اکھاڑے کے منڈلیشور بن گئے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کئی لوگوں کے لیے تو کلام بھی اچھے مسلمان نہیں ہے ۔
کیا صرف دہشت گرد نماز پڑھتے ہیں؟
مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ آپ اچھے اور برے کی تعریف کر رہے ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان روزمرہ کی زندگی میں جو کچھ سوچتے، کہتے یا کرتے ہیں ان میں سے زیادہ تر چیزوں کوفلم میں دہشت گردی سے جوڑدیا گیا ہے۔
جیسے نماز پڑھنے والے مسلمانوں کو ہی دہشت گرد دکھایا گیا ہے۔ صرف مذہبی رسم ورواج میں شامل ہونے والے – جیسے قرآن پڑھنا یا اپنے گھروں میں طغرا رکھنا- مسلمان ہی دہشت گرد ہیں ۔
فلم میں صرف دو مواقع پر گول ٹوپی پہننے والے مسلمانوں کو اچھے مسلمان کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ ایک بار جب وہ پولیس کی مدد کرتے ہیں اور دوسری بار جب وہ گنیش مورتی تھامے ہندو پڑوسیوں کو محفوظ جگہ لے جاتے ہیں ۔ ایسالگتا ہے کہ صرف وہی مسلمان خطرناک نہیں، جو پولیس والوں یا ہندوؤں کی مدد کرتے ہیں ۔
اس کے برعکس اگر کوئی مسلمان ہندوستان کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر بولتا ہے تو وہ دہشت گرد ہے۔
’’اس ملک میں مسلمانوں کا کیا حال ہے، جانتے ہو؟‘‘ یہ سوال تو بہت سے ہندوستانی مسلمان پوچھنا چاہتے ہیں، لیکن ’’ سوریہ ونشی‘‘ ایسے سوال پوچھنے والوں کو دہشت گرد بتاتی ہے ۔
سب جانتے ہیں، سب کے سامنے ہے کہ آج ملک میں مسلمانوں پر روزانہ کی بنیاد پر حملے کئے جاتے ہیں۔ لیکن سوریہ ونشی کے تخلیق کار یا تو اس سے بے خبر ہیں، یا اس سے بے خبر رہنا چاہتے ہیں۔
’’ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے کو دہشت گرد کہا جاتاہے ‘‘ دہشت گردوں کا رہنما کہتا ہے ، وہ بھی اس دور میں جب اصل زندگی میں لوگوں کو یو اے پی اے کےتحت حراست میں لیا جا رہاہے ، کیونکہ انہوں نے تریپورہ میں مسلمان مخالف تشدد پر صرف ٹویٹ کیا تھا ۔
(بشکریہ: دی کوئنٹ ہندی)