اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ کو حماس سربراہ یحییٰ سنوار کی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مبینہ ہلاکت کے بعد پریشانی لاحق ہو گئی ہے کہ یرغمالیوں کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔ ایناو زنگاؤکر جو 24 سالہ اسرائیلی یرغمالی کے والد ہیں نے کہا ‘سنوار کو ہلاک کر کے ہم نے سکور تو حاصل کر لیا ہے لیکن اب میرے بیٹے اور دوسرے یرغمالیوں کی جانیں مزید خطرے میں ہیں۔ ‘
ایک ویڈیو پیغام میں زنگاؤکر نے کہا ‘اگر ہم ان کی جانیں نہیں بچاتے اور ان سب کو واپس گھروں میں نہیں لاتے تو اس جنگ کا حقیقی اختتام نہیں ہوگا اور یہ فتح مکمل فتح نہیں ہوگی۔ ‘
ایک اور یرغمالی کے والد اورنا اور والدہ رونن نیوٹرا نے کہا ‘یہ تمام کوششیں حماس کی قید میں موجود یرغمالیوں کی رہائی پر مرکوز ہیں۔’ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسرائیلی و امریکی حکومت یرغمالیوں کی رہائی کے لیے جو بھی ضروری معاہدہ ہے وہ کرے۔ کیونکہ جس سنوار کو معاہدے کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا گیا تھا، وہ اب زندہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کہ ہم جنگ کے ایک ایسے موڑ پر ہیں جہاں سب کچھ حاصل کر لیا گیا ہے لیکن ابھی تک یرغمالیوں کی رہائی ممکن نہیں ہوسکی
دریں اثنا اسرائیلی اخبار "يديعوت احرونوت” کے مطابق اس بات کی توقع کی جا رہی ہے کہ حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ یحیی السنوار کی لاش کو مذاکرات کے "کارڈ” کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
اخبار کے مطابق اسرائیلی ذمے داران کا اندازہ یہ ہے کہ قیدیوں کے سمجھوتے کے حوالے سے مذاکرات کا معاملہ السنوار کی ہلاکت کے بعد غزہ کی پٹی کے بیرون موجود حماس کی قیادت کی طرف منتقل ہو چکا ہے۔ اس طرح معاہدے تک پہنچنے کے مواقع بڑھ گئے ہیںاخبار نے مزید کہا ہے کہ اسرائیل یرغمالیوں کی کچھ تعداد کے مقابل السنوار کی لاش واپس کرنے پر آمادہ ہو سکتا ہے ، اگر تل ابیب کو یہ پیش کش کی گئی