تحریر: ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
ہمارے ملک میں لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر کو لے کر مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا جس کی روشنی میں اب کسی بھی لڑکی کی شادی کی قانونی عمر اٹھارہ سال سے بڑھا کر اکیس سال پر مرکزی حکومت فیصلہ لے چکی ہے، پارلیمنٹ میں بحث کے بعد اس بل کو پارلیمنٹیری اسٹینڈنگ کمیٹی کی توثیق کے لئے بھیجا گیا ہے، مرکزی کابینہ کے اس فیصلے نے لڑکیوں کی شادی آئینی عمر 18سال سے بڑھا کر لڑکوں کی طرح 21 برس کرنے سے متعلق تجویز کو پہلے ہی منظوری دے دی ہے۔ مرکزی حکومت نے اطفال میریج انسداد قانون (Prohibition of Child Marriage Act, 2006) میں ترمیم کرنے کے لئے اس بل کو پیش کیا ہے۔
لوک سبھا میں اس بل کے پاس ہونے کے بعد دو اہم نکات پر بحث لازمی محسوس ہوتی ہے، پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا مرکزی حکومت یکے بعد دیگرے دستور ہند کے ذریعے محفوظ کئے گئے پرسنل لا کے دائرہ کار میں دخل اندازی کرکے پرسنل لا کو ختم کرنا چاہتی ہیں؟ عمومی طور پر ہمارے ملک میں شادی طلاق نان نفقہ نیز وراثت و تحائف سے متعلق امور میں مذہبی و شرعی قوانین کی روشنی میں ہی معاملات کا تصفیہ کیا جاتا ہے۔ پرسنل قوانین میں حکومتوں کی یہ دخل اندازی کتنی ضروری تھی یا وہ کون سے اسباب اور وجوہات تھے جن کی بنیاد پر دخل اندازی ہوئی یہ ایک اہم بحث ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ پرسنل لا میں وقتا فوقتا اثر انداز ہونے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔
نان نفقہ (Maintenance) کو لے کر شاہ بانو مقدمہ نے ہمارے ملک میں پرسنل لا کی بحث کو سب سے زیادہ ہوا دی تھی۔ کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 125 کے تحت تمام ہی مذاہب کے افراد عدالت میں نان نفقہ کے لئے عرضداشت پیش کرسکتے ہیں، اور اس تناظر میں پرسنل لا کو ختم کیا جاچکا ہے، سپریم کورٹ نے 2009 میں شبانہ بانو بنام عمران خان کے فیصلے میں ایک بار پھر واضح کیا کہ ایک مسلم عورت عدت کی مدت گزرنے کے بعد بھی کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 125 کے تحت اپنے سابق شوہر سے نان نفقہ طلب کرسکتی ہے، اور عدالت اس مطلقہ کو اس کی دوسری شادی ہونے تک کے لئے نان نفقہ دینے کا حکم دے سکتی ہے۔
طلاق کا اصول اور اس کے طریقے پرسنل قوانین میں بتائے گئے ہیں، تین طلاق سے متعلق مقدمہ “شاعرہ بانو بنام یونین آف انڈیا” کا 2017 میں فیصلہ کرتے ہوئے تین طلاق کے عمل کو غیر دستوری قرار دے دیا جب کہ پرسنل لا کے زمرے میں آنے والے شرعی قوانین کی روشنی میں تین طلاق کو طلاق کی ایک قسم کی صورت میں شامل کیا گیا ہے، جب کہ مرکزی حکومت نے ایک الگ قانون بناکر تین طلاق کو نا صرف غیر دستوری اور غیر قانونی قرار دیا بلکہ تین طلاق دینے کی سزا تین سال قید بھی متعین کردی گئی۔
اب سوال یہ ہے کہ شادی کو لے کر بھی پرسنل لا میں دخل اندازی پہلی بار نہیں ہوئی ہے، شرعی و فقہی قوانین کی روشنی میں شادی کی عمر سن بلوغت کو پہنچنے پر ہے، جب کہ لڑکی ۱۵ سال کی عمر میں بالغ ہوجاتی ہے، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر مسلم لڑکی یا عمومامسلم گھروں میں لڑکی کی شادی ۱۵ سال کی عمر میں شادی ہوجاتی ہے، اور نا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ شادی کے بعد لڑکی تعلیم حاصل نہیں کرتی ہے، کیرلا، اترپردیش یا دہلی کی آب و ہوا کے ساتھ رسم ورواج میں بہت فرق پایا جاتا ہے۔ حالیہ ترمیم کے ذریعے اطفال میریج انسداد قانون (Prohibition of Child Marriage Act, 2006) کی دفعہ 2(a) کے تحت بچہ یعنی چائلڈ کی تعریف میں ترمیم و تبدیلی کرنے کے بعد “ چائلڈ کا مطلب کوئی بھی آدمی مرد یا عورت جس نے 21 سال کی عمر کی مکمل کرلی ہو۔ ترمیم سے پہلے اس دفعہ کے مطابق مرد کے لئے 21 سال عمر تھی جب کی عورت کے لئے 18 سال کی عمر مختص تھی۔ مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ جیا جیٹلی کی کمیٹی کی سفارشوں کی بنیاد پر کیا گیا ہے ۔پچھلے سال بنی اس دس رکنی کمیٹی کو یہ دیکھنا تھا کہ شادی اور زچگی کی عمر کا ماں اور نوزائدہ بچے کی صحت اور مختلف ہیلتھ پیچیدگی جیسے زچہ بچہ کی شرح اموات وغیرہ پر کیسا اور کتنا تعلق ہے ؟ جنسی برابری کی سمت میں اٹھائے جانے والے اس نام نہاد اہم قدم پر بہت سے سوالات کئے جارہے ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی نے 15 اگست 2020 میں یوم آزادی پر لال قلعہ سے اپنی تقریر میں یہ اعلان کیا تھا کہ لڑکیوں کو مزید طاقتور بنانے کی غرض سے ان کی شادی کی عمر کو بڑھایا جائے گا، شادی کی کم از کم عمر کو لیکر اختلاف کیا جانا لازمی ہے، صرف قانون بناکر لڑکیوں کی یا لڑکوں کی شادی کو نہیں روکا جاسکتا ہے کیونکہ 2006 کے درج بالا قانون کے مطابق لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر 18سال متعین کی گئی تھی اور اسی قانون کی دفعہ 3 (4) کے مطابق اگر کسی لڑکی کی شادی 18سال کی عمر سے پہلے ہوئی تو وہ شادی غیر قانونی تسلیم کی جائے گی، لیکن اس قانون کے بعد بھی چائلڈ میریج کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکا۔ اس سے پہلے بچہ شادی کی رسم کو ختم کرنے کے لئے انگریز حکومت نے قانون کے ذریعے ہی 1929 میں لڑکیوں کے لئے شادی کی کم ازکم عمر 14سال اورلڑکوں کے لئے 19سال طے کی تھی، یہ عمر پہلے 1978 میں اور پھر دوبارہ 2006 میں لڑکوں کے لئے 21 سال اور لڑکیوں کے لئے 18 کردی گئی تھی، لیکن قانون کے بنائے جانے بعد تقریبا ایک صدی کا لمبا عرصہ گزر چکا ہے تاہم آج تک لڑکیوں کی تعلیم میں شرح کو بڑھانے میں ہماری حکومتیں خاطر خواہ کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی ہیں، یہ کہنا غلط ہوگا کہ ہمارے سماج میں لڑکیوں کا تعلیم سے محروم ہونے کی وجہ کم عمر میں شادی بنتی ہے۔
ہماری حکومتیں اگر واقعی سماج میں لڑکیوں کی تعلیم و ترقی کے تئیں ایماندار اور سنجیدہ ہیں تو لڑکیوں کے لئے تعلیم و روزگار کے مواقع بڑھانے پر غور کریں، اگر مرد و خواتین یا لڑکے و لڑکیوں کی شادی کی عمر یکساں کرنے کے پیچھے اصل سبب ان کو یکساں و مساوی درجہ فراہم کرنا ہے تو یہ بہت ہی گمراہ کن دلیل ہے، سماج میں ترقی و تحفظ کے مواقع فراہم کرنے ہونگے۔آخر جب قانون میں ترمیم کے بعد لڑکیوں کی شادی کی عمر کم ازم کم 18برس اور لڑکوں کی عمر 21سال کی گئی تھی لیکن سماج میں کم سن عمر کی شادیوں پر روک نہیں لگائی جاسکی، جہیز کی رسم پر روک لگانے کے لئے اسپیشل قانون پاس کیا گیا لیکن سماج سے جہیز کی رسم کو ختم کرنے یا روکنے میں حکومتیں پوری طرح سے ناکام رہی ہیں، وہیں نابالغ بچوں کو مزدوری سے روکنے کے لئے چائلڈ لیبر تحفظاتی قوانین بنائے گئے تاہم آج بھی ہمارے سماج میں بچوں کو منظم و غیر منظم سیکٹر کے ساتھ ساتھ سرکاری کارخانوں میں بھی لاکھوں کی تعداد میں بندھوا نیز بچوں کی مزدوری کے آنکڑے ہمارے پاس موجود ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سماجی مسائل سے نبٹنے کے لئے اصول و ضوابط اور بعض دفعہ مخصوص قوانین کی بھی ضرورت پڑتی ہے لیکن ایک بہت اہم و سنجیدہ مسئلے کو سیاسی مفادات کی غرض سے سماجی یا مذہبی رسم و رواج کے لئے ذمہ دار ٹھہرادینا یقینا ایمانداری نہیں ہوگی، ہمارے سماجی و مذہبی اداروں کو لڑکیوں کی تعلیم و ترقی کے لئے سنجیدہ کوششیں کرنی چاہیے ہیں، حکومت کو اپنے وسائل و ذرائع کا استعمال کرکے سماج کے پچھڑے طبقات کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، ہماری حکومتوں کو بہت سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ ہم عمری کی شادیاں غربت و مفلسی کی وجہ سے ہوتی ہیں یا وہاں کی مخصوص آب و ہوا اور رسم و رواج کے تناسب سے ہوتی ہیں، جو سابقہ قوانین کے ذریعے روکی نہیں جاسکی ہیں، لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ لاکھوں کروڑ کی اسکیموں اور یوجناوں کے بنانے کے بعد بھی نا تو اسکولوں کی صورت حال سدھر رہی ہے اور نا ہی سماج کے پچھڑے ہوئے کمزور طبقات کی غربت کم ہورہی ہے اور نا ہی ہمارے ملک کا پبلک ہیلتھ اور سرکاری اسپتالوں میں کوئی سدھار آرہا ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)