واشنگٹن ڈی سی —
رواں برس اپریل کے بعد کئی امریکی یونیورسٹیوں میں غزہ جنگ بندی اور اسرائیل سے سرمایہ ہٹانے کے مطالبات کے لیے مظاہرے کیے گئے تھے۔ اس احتجاج کے دوران کئی یونیورسٹیوں میں طلبا کے پولیس کے درمیان افراتفری کے مناظر بھی دیکھنے کو ملے اور پولیس کی جانب 31 سو کے قریب طلبا کو گرفتار کیا گیا۔ جن میں ملکی اور غیرملکی دونوں شامل تھے۔
اس میں امیگرنٹ ویزا، ایف ون ویزا پر آنے والے کچھ طالبعلموں کو ڈی پورٹ ہوجانے کا مسئلہ بھی درپیش ہو سکتا ہے۔
اس ویزا پر امریکہ آئے ہوئے چند طلبا نے وائس آف امریکہ سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں یہاں پہلی آئینی ترمیم کے تحت آزادی اظہار کا حق محسوس نہیں ہوا، خصوصاً فلسطینیوں کے حق کے لیے بات کرنے کے معاملے میں۔
امریکہ کی پہلی آئینی ترمیم اظہار کی آزادی کے حق کی ضمانت دیتی ہے، لیکن ان طلبا کے مطابق جب بات فلسطین، اور فلسطینیوں کے حقوق کی آتی ہے تو انہیں لگتا ہے کہ یہاں کی یونی ورسٹیاں حق آزادی کو دباتی ہیں۔
امریکہ میں ایف ون ویزا فل ٹائم تارکین وطن طلبا کو دیا جاتا ہے اور یہ یونیورسٹی داخلے سے مشروط ہوتا ہے۔ کسی بھی قسم کی معطلی کی صورت میں متعلقہ طالب علم کو ملک سے ڈی پورٹیشن کا سامنا ہو سکتا ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں ایک یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ نے، جن کا تعلق بھارت سے ہے، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ کچھ ہی عرصہ قبل بھارت سے امریکہ پڑھنے کے لیے آئی ہیں اور انہیں یہاں آ کر محسوس ہوا ہے کہ ان کے پاس یہ آپشن نہیں ہے کہ وہ ہر معاملے پر اپنی آواز اٹھا سکیں۔ انہوں نے اس مسئلے کی حساس نوعیت کی وجہ سے اپنا نام نہ بتانے کی درخواست کی ہے۔
اس سوال پر کہ وہ کون سے معاملات ہیں جن پر وہ محسوس کرتی ہیں کہ وہ اظہار نہیں کر سکتیں، ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو فلسطین، اور فلسطینیوں کے حقوق کا معاملہ ہے۔ ’’میں یہاں پر کچھ عرصہ پہلے ہی آئی اور تب سے اس مسئلے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔‘‘بقول ان کے ’’مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ مجھے پر بات پر بولنے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے۔‘‘
رواں برس مئی میں صدر جو بائیڈن نے امریکی یونی ورسٹیوں میں طلبا مظاہروں پر تبصرہ کرتے ہوئے بیان دیا تھا کہ ایسے موقع پر جب یونیورسٹیوں کو تشدد، غم و غصے اور خوف کی لہر کا سامنا ہے، امن و امان لازمی طور پر برقرار رکھا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے لیے اختلاف رائے ضروری ہے لیکن اختلاف کو کبھی انتشار کا باعث نہیں بننا چاہیے۔
مومودو تال کی صورت حال پر واشنگٹن ڈی سی کی طالبہ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ’’ یہ ہمارے اندر ڈر بیٹھا دے گا، جب ایک انسان کو آئی وی لیگ سے نکال دیا جاسکتا ہے، جو وہاں پڑھاتے بھی ہیں، تو پھر طلبا تو کیا ہی ہیں، اگر ہمیں کل کو ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے، تو ہماری تو کوئی بھی پرواہ نہیں کرے گا۔‘‘(وائس آف امریکہ)