دہرادون: اترکاشی میں مساجد قانونی ہیں یا غیر قانونی اس بحث کے درمیان اٹھنے والی ہندو جن آکروش ریلی کے بعد یہ بحث بھی شروع ہو گئی ہے کہ اتراکھنڈ کی تشکیل کے بعد یہاں کتنی نئی مساجد، مدرسے اور درگاہیں بنی ہیں۔ ہندو تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ دیو بھومی میں اسلامی مقامات کی اراضی کی مکمل چھان بین کی جائے۔ ہندو جاگرن منچ نے کہا ہے کہ دیو بھومی کی شکل کو برقرار رکھنا ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس کا الزام ہے کہ سرکاری اراضی پر قبضہ کرکے پہلے وہاں مساجد، مدارس اور درگاہیں بنوائی جارہی ہیں، پھر وقف بورڈ میں ان کا اندراج کرانے کے بعد تنازعات پیدا کیے جاتے ہیں۔
ہندو جاگرن منچ کا الزام ہے کہ ضمنی انتخابات کے وقت ہریدوار میں مسجدیں بنوائی گئیں، مسجدیں دور دراز کے پہاڑی قصبوں جیسے بیریناگ، دھرچولا وغیرہ میں بنائی گئیں۔ جنگلات میں مسجدیں اور مدارس بن رہے ہیں، یہ تشویشناک ہیں۔ دہرادون، نینی تال، ہری دوار، ادھم سنگھ نگر اور دیگر اضلاع میں اتنی بڑی تعداد میں شا ندار مساجد کیسے وجود میں آئیں؟ ان کی مالی امداد کون کر رہا ہے؟ یہ سب تحقیقات کا موضوع ہونا چاہیے۔
ہندوسنگٹھن کا دعویٰ ہےکہ اتراکھنڈ کے سناتن علاقے میں وقف بورڈ کی 5 ہزار سے زیادہ جائیدادوں کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ معلومات کے مطابق، اتراکھنڈ وقف بورڈ نے 5183 جائیدادوں پر دعویٰ کیا ہے، اس کے علاوہ 205 جائیدادوں کے کیس بھی عدالت میں زیر التوا بتائے جاتے ہیں۔ معلومات کے مطابق، جب 2003 میں اتراکھنڈ وقف بورڈ کا قیام عمل میں آیا تھا، تب 2078 جائیدادوں کے بارے میں معلومات ملی تھیں، جن میں سے 450 فائلیں یوپی سے اتراکھنڈ نہیں پہنچی تھیں۔ تازہ معلومات میں دلچسپ بات یہ ہے کہ وقف بورڈ کی فہرست میں قبرستانوں کی تعداد زیادہ ہے (سورس:پانچجنیہ)