تحریر: نایاب حسن
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اس سے قبل ایم اے او کالج کی تاریخ دراصل بر صغیر کی تعلیمی و تہذیبی اور اجتماعی ذہن و شعور کی تربیت کی تاریخ ہے،یہ وہ تاریخ ہے ،جس سے سرسری نہیں گزرا جاسکتا اور خصوصاً اس خطے کے مسلمانوں کے ماضی کو پڑھتے،سنتے،لکھتے یا دیکھتے ہوئے اے ایم یو کی تاریخ کو منہا کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔اس خطے کے مسلمانوں کا گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سو سال کا کوئی سا علمی، فکری،سماجی یا سیاسی شعبہ اس عظیم الشان ادارے کے بغیر ،اس کے اساس گزاروں کے ذکر و تذکار کے بغیر اور اس کے فرزندوں کو یاد کیے بغیر نامکمل اور ادھورا ر ہے گا۔البتہ اس تاریخ کے کئی پہلو ہیں،کچھ خوشگوار،کچھ ناخوشگوار،چھ امید افزا،کچھ یاس انگیز،کچھ قابلِ افتخار،کچھ ناقابلِ اعتبار،کچھ وہ جو آج بھی ہمارے ملک و قوم کے ماتھے کا جھومر ہیں،کچھ وہ جن میں درستگی اور اصلاح ناگزیر ہے،کچھ وہ پہلو ہیں،جو آج بھی علی گڑھ کی دانش ورانہ ثقافت و امتیاز کا حوالہ ہیں،کچھ وہ پہلو بھی ہیں،جن پر بے دانشی اور بد تہذیبی کے دھبے لگے ہوئے ہیں اور انھیں صاف کرنا چاہیے۔
انگریزی کے مشہور صحافی اور ’ٹائمس آف انڈیا‘ممبئی کے سینئر اسسٹنٹ ایڈیٹر محمد وجیہ الدین کی حالیہ دنوں شائع شدہ کتابThe Making Of The Modern Indian Muslim:Aligarh Muslim Universityکے مطالعے کے دوران یہ محسوس ہوتا ہے کہ مصنف نے ایک سابق طالب علم اور محبِ علی گڑھ ہونے کی حیثیت سے نہ صرف اپنی مادرِ علمی کی عظمت و جلالت کا اعتراف کیا اور اس کے شاندار ماضی کا گن گان کیا ہے؛بلکہ ایک اصول پرست مصنف،تاریخ نگار اور صحافی ہونے کی حیثیت سے وہ باتیں بھی قلبی کشاد و انشراح کے ساتھ لکھیں اور ان کا اعتراف کیا ہے،جن کے بارے میں انھیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ علی گڑھ کے شایانِ شان نہیں ہیں۔اگر علی گڑھ کی شناخت ایک قومی و ملی اثاثے کی ہے،تو خارج میں اس کے کیرکٹر اور حرکت و عمل سے ہمیشہ اسی کا اظہار ہونا چاہیے ۔محمد وجیہ الدین نے اپنی کتاب میں کمال فن کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت اختصار کے ساتھ علی گڑھ کی اساس گزاری سے لے کر اب تک کی پوری تاریخ پلٹ دی ہے،اختصار کا عالم یہ ہے کہ پوری کتاب محض ۲۱۶؍صفحات پر تمت بالخیر ہوجاتی ہے اور ان میں سے بھی ۲۴؍صفحات میں نوٹس اور حواشی پھیلے ہوئے ہیں ،اصل کتاب صفحہ نمبر ۱۹۱؍پر ہی مکمل ہوجاتی ہے۔ مگر کل دس عنوانات یا ابواب کے تحت انھوں نے اے ایم یو کی تاریخ یا اہم تاریخی سنگ ہاے میل کو بڑی خوب صورتی سے سمیٹنے اور درشانے کی کوشش کی ہے ،جس میں وہ کامیاب بھی قرار دیے جاسکتے ہیں۔ پہلا باب ہے The Making of AMU،اس کے تحت انھوں نے ایم اے او کالج کے اے ایم یو بننے کی کہانی بیان کی ہے اور اس سلسلے کے تاریخی مراحل کا اجمالاً بہت عمدہ تذکرہ کیا ہے۔دوسرا عنوان غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے،جس کا تعلق علی گڑھ اور تقسیمِ ہند سے ہے۔عام طورپر وہ علی گڑھ والے ،جو ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں،وہ تقسیمِ ہند اور اے ایم یو کا ذکر آتے ہی کچھ جھینپنے یا جزبز ہونے لگتے ہیں،اگر کچھ بولیں یا لکھیں،تو معذرت خواہانہ یا دفاعی رویہ اختیار کرتے ہیں،دوسری طرف پڑوس کے مؤرخین و مصنفین ساری تاریخ دانی؛بلکہ تاریخ سازی کا زور اس پر صرف کرتے ہیں کہ پاکستان علی گڑھ نے بنایا اور تصورِ پاکستان کے داتا تو سر سید احمد خان تھے،انھوں نے ہی پہلے پہل دو قومی نظریے کی جھلک دکھائی تھی؛حالاں کہ اصل تاریخ تو وہاں یہ پڑھائی جاتی ہے کہ جس دن محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کیا،اسی دن پاکستان وجود میں آگیا تھا۔ بہر کیف کچھ حقائق اور کچھ ملمع سازی و افسانہ تراشی کی وجہ سے تقسیمِ ہند میں علی گڑھ کے کردار کا موضوع خصوصاً ہندوستانی مسلم اہلِ علم و مؤرخین کے لیے مشکل اور چیلنجنگ رہا ہے،کم ایسے لوگ ہیں، جو اس موضوع سے کماحقہ عہدہ برآ ہوسکے ہیں،میرے خیال میں وجیہ الدین صاحب بھی ان گنے چنے اہلِ قلم میں سے ایک ہوں گے، جنھوں نے اس موضوع کے ساتھ انصاف کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے،دوسرے باب Aligarh and Partition Pangsکا آغاز ہی انھوں نے فاضل علیگ اور پاکستانی بیوروکریٹ مختار مسعود کی مشہور کتاب’آوازِ دوست‘ کے ایک اقتباس سے کیا ہے، اندرون میں محمد علی جناح اور مسلم لیگ کی اے ایم یو میں انقلاب انگیز انٹری کے پس منظر کا بیان ہے،اس حوالے سے اس زمانے کے وی سی سر ضیاء الدین کے کردار کا حوالہ اور ان کی امنگوں کے عبرت ناک اختتام کا بیان ہے،۱۹۳۸ سے ۱۹۴۷ تک کے عرصے میں لیگ اور جناح اے ایم یو پر کس طرح حاوی رہے،اس کا تذکرہ ہے،اسی حصے میں مصنف نے دو قومی نظریے کے حوالے سے ہندو مہاسبھا اور مسلم لیگ کے درمیان دلچسپ فکری و عملی یکسانیت پر بھی روشنی ڈالی ہے،اس سارے تناظر میں کانگریس سے کہاں کہاں چوک ہوئی،اس طرف بھی اہم اشارے ہیں اور ساتھ ساتھ اے ایم یو کے نیشنلسٹ طلبہ،جن کی تعداد گو کہ کم تھی،ان کی غیر معمولی مزاحمت کا بھی اس حصے میں بیان ہے۔آزادی سے قبل کے آٹھ دس سالوں کے دوران اے ایم یو کے نیشنلسٹ طلبہ کی سرگرمیوں کے حوالے سے پروفیسر ریاض الرحمن شیروانی کی نامکمل خودنوشت ’’دھوپ چھاؤں‘‘ فرسٹ ہینڈ معلومات فراہم کرتی ہے،معلوم نہیں مصنف کے پیشِ نظر یہ کتاب رہی ہے یا نہیں۔بہر کیف انھوں نے تقسیمِ ہند میں اے ایم یو کے کردار کے معاملے میں کسی لیپاپوتی،عذر خواہی یا جھجھک آمیز رویے کا اظہار نہیں کیا ہے؛بلکہ تاریخی حقائق کو جوں کا توں پیش کرتے ہوئے ان کے پس منظر و پیش منظرکو واضح انداز میں بیان کردیا ہے،جسے باشعور قاری اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔
تیسرے حصے میں آزادی کے بعد کے ناگفتہ حالات میں اے ایم یو کی بقا میں اہم کردار ادا کرنے والی دو مرکزی شخصیات مولانا آزاد اور ڈاکٹر ذاکر حسین کا تذکرہ ہے،ذاکر حسین کے دور انتظام میں کیے گئے اہم اقدامات کا ذکر ہے اور کچھ دلچسپ تاریخی حقائق کا بیان بھی۔محمد وجیہ الدین نے بڑی خوبی سے ماضی کے واقعات کی کڑیاں حال سے ملائی ہیں۔
چوتھا باب،جس کا عنوان ہےA Modern Institution or Madrasaبہت اہم ہے،ان معنوں میں کہ مصنف نے اس میں اے ایم میں مدارس کے فضلا کی آمدکے بڑھتے ہوئے سلسلے اور مختلف شعبوں میں ان کے داخلے سے بحث کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اے ایم یو جدید تعلیمی ادارہ ہے یا کوئی مدرسہ؟پھر انھوں نے مدرسہ والوں کی اے ایم یو میں آمد کی شروعات کی تحقیق بھی پیش کی ہے اور مختلف سبکدوش اساتذہ کے حوالے سے اس کی ذمے داری سابق وائس چانسلرز سید حامد اور ریٹائرڈ جنرل ضمیرالدین شاہ پر ڈالی ہے،جب ان دونوں کا نام آیا ہے،تو پھر ان کے دورِ وائس چانسلری کے کچھ دوسرے اہم واقعات ،اے ایم یو کے اسکولز اور بیرونی کیمپسز کا احوال بھی زیر بحث آیا ہے۔اسی حصے میں کچھ تذکرہ اے ایم یو کے اقلیتی کردار کی جدوجہد اور اس کی تاریخ کا بھی ہوا ہے۔
مصنف مختلف پروفیسرز کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سید حامد نے تو مدرسہ والوں کے لیے(بعض شعبوں میں داخلے کے لیے ان کی ڈگریوں کو منظور کرکے) چھوٹاسا دروازہ کھولاتھا،مگر ضمیرالدین شاہ نے تو ایک سالہ بریج کورس کی شروعات کرواکے ان کے لیے گویا اے ایم یو کے دروازے کو چو پٹ کھول دیا ہے۔(ص:۸۵) سابق پروفیسر عارف الاسلام اس عمل کواے ایم یو میں مدرسہ والوں کی’’گھس پیٹھ‘‘ قرار دیتے ہیں۔(ایضا) اور شعبۂ اردو کے سابق پروفیسر اصغر عباس کا بیان بھی نقل کیا ہے کہ وہ’’ایک جدید تعلیمی ادارے کو بڑے انفراسٹرکچر والے مدرسے میں بدلتا دیکھ کر حیرت زدہ ہیں‘‘،وہ صاف صاف فرماتے ہیں کہ مدرسہ والوں کو اے ایم یو میں انٹری دے کر سرسید کے خوابوں ،یادوں اور ان کی وراثت کے ساتھ نا انصافی کی جارہی ہے۔(ص:۹۷)
ویسے یہ امر زیادہ دل چسپ اور حیرت انگیز ہے کہ ایک طرف ہمارے دانش وران مدرسہ والوں کی جدید دانش سے بے خبری کا رونا روتے ہیں اور اگر وہ اس طرف آ رہے ہیں،تو یہ بھی انھیں برداشت نہیں۔ وجیہ الدین صاحب نے کیمپس کے بعض مسلکی تعصب و انتہاپسندی کے واقعات کا ذکر کیا ہے،جو یونیورسٹی کے ماحول میں مختلف المسالک فضلاے مدارس کے جانے اور رہنے کے دوران پیش آئے ہیں،مگر یہ بھی حیقیقت ہے کہ ایسے واقعات کی تعداد بہت ہی کم ہوتی ہے اور ان کی وجہ سے اے ایم یو کی طرف اہلِ مدرسہ کے رخ کرنے پر سوال اٹھانا نامناسب اور یہ کہنا کہ ان کا اے ایم یو میں آنا اور پڑھنا اے ایم یو کے مقاصد کی خلاف ورزی ہے، سراسر زیادتی ہوگی۔
پانچویں حصے میں اے ایم یو کے شان دار ماضی اور غیر مستحکم حال کا منصفانہ جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے اور یونیورسٹی کی سطح پر حالیہ پانچ سات سال کے عرصے میں جو اہم سانحات رونما ہوئے ہیں اور ان میں اے ایم یو انتظامیہ نے اپنے طلبہ اور یونیورسٹی کے وقار کے تحفظ کے تئیں جس ڈھیلے اور مضمحل رویے کا مظاہرہ کیا ہے،اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ ’’اس وقت یونیورسٹی کو ایک مضبوط اور حکیمانہ قیادت کی ضرورت ہے جو سیاسی دباؤ کو جھیلنے کے ساتھ طلبہ کو تحفظ بھی فراہم کرے۔ ایک وی سی سربراہِ خاندان جیسا ہوتا ہے اور طلبہ و طالبات اس کی اولاد کی طرح ہیں،اگر انھیں کوئی شکایت ہے تو وی سی کو ان کے پاس جانا چاہیے،ان کی بات سننی چاہیے، کیمپس میں پولیس بلانا اور طلبہ کے ساتھ دشمنوں جیسا برتاؤ کرنا صحت مند علامت نہیں ہے۔ کسی بھی لبرل تعلیم گاہ کی طرح اے ایم یو کے طلبہ کو بھی حقِ اختلاف ہونا چاہیے۔ اگر اس یونیورسٹی کا ماضی شان دار رہا ہے،تو اس کا حال متزلزل اور غیر مستحکم نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ (ص:۱۱۸)
کتاب کے چھٹے باب میں اے ایم یو میں ایک حد تک تبلیغی جماعت کے اثر و رسوخ کی تاریخ اور اس کے موجودہ منظرنامے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس ضمن میں مصنف نے اس جماعت کے بنیادی عملی تصور پر روشنی ڈالتے ہوئے کورونا کی پہلی لہر کے دوران حکومت اور میڈیا کے ذریعے تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کی مہم کا بھی ذکر کیا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے اے ایم یو جیسے ’’جدید،ترقی پسند تعلیمی ادارے ‘‘میں ایسے مذہبی گروپ کے سرگرم وجود کو ایک قابلِ بحث موضوع قرار دیا ہے۔ ساتویں باب کا عنوان’’سرسید کے مشن کا احیا اور ایک خواب کی موت‘‘ ہے،جس میں انھوں نے معروف ماہر تعلیم،اقرا انٹرنیشنل ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے بانی اور ممتاز علیگ ڈاکٹر عابداللہ غازی کے ذریعے اے ایم یو میں اکیڈمی آف ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے قیام اور اس کے خاتمے کی روداد اور زیادہ تر غازی صاحب کی تعلیمی و عملی زندگی کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی ہے۔ایک حصے میں مصنف نے اے ایم یو میں مبینہ طور پر بڑھتی ہوئی اسلامیت اور خصوصاً جماعت اسلامی کے روز افزوں اثرات پر بھی گفتگو کی ہے۔ اس ضمن میں مولانا مودودی کے نظریات ،اے ایم یو میں ان کی مقبولیت کے پس منظر اور جماعت سے ہمدردی رکھنے والے طلبہ کی اے ایم یو میں سرگرمیوں ،سیمی،ایس آئی او(علی گڑھ ) کے قیام کے پس منظر، ان کے طریقۂ کار اور ان پر پابندی وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے۔ مصنف کا مقدمہ یہاں بھی وہی ہے کہ ایک جدید،ترقی پسند تعلیم گاہ کو ’’اسلامائز‘‘ کرنا نادرست ہے،جن لوگوں اور جماعتوں نے سرسید احمد خان کے نظریات کو مسترد کیا،انھیں اے ایم یو کیمپس میں کیسے سپیس دیا جاسکتا ہے؟ حالاں کہ شعبۂ دینیات کے ڈین پروفیسر سعود عالم قاسمی انھیں یہ بتاتے ہیں کہ’’یونیورسٹی ایک ایسی جگہ ہوتی ہے، جہاں مختلف قسم کے افکار و نظریات فروغ پاتے ہیں۔ یہ تحریکیں اور جماعتیں بعض اعتبار سے مفید ہیں اور طلبہ کو لایعنی سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے محفوظ رکھتی ہیں۔ ان کے ذریعے انھیں شروعاتی زندگی میں ہی خدمتِ قوم و ملت اور باہمی تعاون کا شعور مل جاتا ہے‘‘۔(ص:۱۶۹) آخری باب To the Students of AMUمیں مصنف نے موجودہ حالات کے تناظر میں علی گڑھ یونیورسٹی اور اس کے طلبہ کی ذمے داریاں بتائی ہیں اور اقبال اور علی گڑھ کے بعض قدیم فضلا کے حوالے سے طلبہ کو نصیحتیں بھی کی ہیں۔ انھوں نے اے ایم یو انتظامیہ ،بلکہ پوری علیگ برادری کو کئی اہم قابلِ اصلاح تعلیمی،تعمیری و اخلاقی پہلووں کی طرف متوجہ کیا ہے۔
بعض خیالات و آرا سے اختلاف کی گنجایش کے ساتھ مجموعی طورپر کہا جاسکتا ہے کہ محمد وجیہ الدین کی یہ کتاب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی کہانی نہایت دلچسپ اور غیر روایتی انداز میں بیان کرتی ہے،یہی اس کتاب کی انفرادیت بھی ہے۔ اس موضوع پر یقیناً علی گڑھ کے اندر اور باہر کے بہت سے لوگوں نے لکھا ہے اور لکھتے رہتے ہیں، مگر وجیہ صاحب نے جس اختصار و جامعیت کے ساتھ یونیورسٹی کے ماضی و حال پر روشنی ڈالتے ہوئے مستقبل سے وابستہ امیدوں اور امکانات پر گفتگو کی ہے،وہ لائقِ ستایش ہے۔ دوسری اہم خوبی اس کتاب کی رواں دواں،سلیس و شگفتہ انگریزی نثر ہے،جو ان کی قدرتِ تحریر پر دال ہے،ان کے جملوں اور تعبیرات و تراکیب میں کہیں بھی پیچیدگی اور ابہام نہیں ہے۔چوں کہ مصنف ایک کہنہ مشق انگریزی صحافی و قلم کار ہیں اور بہت شستہ ادبی ذوق بھی رکھتے ہیں؛اس لیے ان کی زبان میں شیرینی ہے،اثر آمیزی ہے اور اور اسلوب و ادا کی وہ چاشنی ہے،جسے صاحبِ ذوق قاری بخوبی محسوس کر سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اے ایم یو سے ،اس کی تاریخ سے اور اس کے حال و استقبال سے دلچسپی والا ہر شخص اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہے گا اور کر بھی رہا ہے؛چنانچہ یہ کتاب جب سے شائع ہوئی ہے،مسلسل زیرِ بحث ہے،اس کے اجرا اور مذاکرے کے کئی پروگرام ہوچکے ہیں اور ہوتے ہی جا رہے ہیں،سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں متعدد تبصرے بھی لکھے جاچکے ہیں۔ کتاب کی طباعت مشہور ادارے ہارپر کالنز نے کی ہے،قیمت ۳۹۹ روپے ہے۔مختلف مشہور بک سٹورز کے علاوہ امیزون وغیرہ آن لائن پلیٹ فارم پر بھی دستیاب ہے۔