تحریر:شکیل رشید
یہ اچانک مہاراشٹر کی فضا میں مغل فرمانروا اورنگ زیب کے نام کا شور کیوں ہے؟ کیوں ’ منسے ‘ سربراہ راج ٹھاکرے کےکارکنان ، لیڈران ، اور بی جے پی اور شیوسینا کےقائدین ، اورنگ زیب کو نام لے لے کر کوس رہے ہیں ؟ کیوں بی جے پی کے نتیش رانے ، ’ منسے ‘ کے گجانن کالے اور شیوسینا کے رکن پارلیمنٹ سنجے راؤت یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ اویسی کو اورنگ زیب کے مقبرہ کے برابر ہی دفن کر دیں گے ؟ اور یہ اچانک اکبر الدین اویسی کو اورنگ زیب کیوں یاد آگیے؟!
بات چھوٹے اویسی سے شروع کرتے ہیں ۔چھوٹے اویسی اورنگ آباد ایک ایسے اسکول کے افتتاح کے لیے آئے تھے جہاں بچوں کو مفت تعلیم دی جائے گی ۔ یہ ایک نیک کام ہے ،لیکن اس نیک کام میں نفرت بھرے جملے کہاں سے داخل ہو گیے ؟ چلیے ، مان لیا کہ چھوٹے اویسی کو صوفیا کرام سے انتہائی عقیدت ہے ، اور وہ ، اس ملک کے بہت سارے لوگوں کی طرح ، اورنگ زیب کو صوفی شہنشاہ مانتےہیں ، اس لیے اورنگ آباد پہنچے تو خراجِ عقیدت کے لیے خلد آباد بھی چلے گیے ، اور اورنگ زیب کے مزار کی زیارت بھی کر لی ۔ لیکن کیا ’’ مسجدوں سے لاؤڈاسپیکروں کے ذریعے اذان ‘‘ کے ، اُ س قضیے کو ، جسے ممبئی سمیت مہاراشٹر بھر کے مسلمانوں نے حکمت سے سلجھا لیا ہے ، موضوع گفتگو بنانا ضروری تھا ، اور وہ بھی انتہائی شر انگیز لہجے میں ؟ کیا ’’ لاؤڈاسپیکر ‘‘ اور ’’ اذان ‘‘ کی بات کرتے ہوئے یہ کہنا ضروری تھا کہ ’’ کتےبھونکتے رہیں گے ، تم خاموش رہو ، انہیں نظر انداز کرو ۔ میں کسی کو گالی دینے والا نہیں ہوں ؟ ‘‘ کیا اسے ، ان شرپسند عناصر کو موقع دینا نہیں کہا جائے گا ، جو آپس ہی میں دست و گریبان ہیں؟ وہ جن کی ، مہاراشٹر کی سیاست پر نظر ہے ، خوب واقف ہیں ، کہ ان دنوں ہندوتوادی نظریات رکھنے والی سیاسی جماعتیں ، مہاراشٹر میں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی ہوئی ہیں ۔ بات اقتدار کی ہے ۔ بی جے پی سے اقتدار چونکہ چھن گیا ہے ، اس لیے وہ تلملارہی ہے ، اور اس کی ہر کوشش ہے کہ کسی طرح سے ریاست کی ’ مہا وکاس اگھاڑی ‘ ( ایم وی اے ) کی حکومت غیر مستحکم ہو جائے ۔ مہاراشٹر کے سابق وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس ، سابق حلیف شیوسینا پر ، اور اس کے پرمکھ ، ریاست کے وزیرِاعلیٰ ادھو ٹھاکرے پر ، تنقید اور نکتہ چینی کا کوئی موقع نہیں چوکتے ۔سب کو پتہ ہے کہ مرکزی حکومت کی ایجنسیاں ، چاہے وہ ’ ای ڈی ‘ ہو یا ’ سی بی آئی ‘ اور ’ انکم ٹیکس ‘ ریاست بھر میں شیوسینا، کانگریس اور این سی پی کے لیڈروں کے ٹھکانوں پر چھاپہ ماری کرتی رہی ہیں ،یہاں تک کہ ادھو ٹھاکرے کے رشتے دار اور سنجئے راؤت تک ان کا نشانہ بنے ہیں ، اور یہ سب ہنوز نشانے پر ہیں ۔ مقصد ادھو ٹھاکرے کے اعتماد کو متزلزل کرنا ، اور اگھاڑی سرکار کو غیر مستحکم کرنا ہی ہے ۔ شیوسینا کے سابق قائد ،پھر کانگریس اور اب بی جے پی کے لیڈر نارائن رانے نے الگ ادھو ٹھاکرے کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے ۔ نتیش رانے ان کے بیٹے ہیں ، وہ اکبر الدین اویسی کے ’’ لاؤڈاسپیکر ‘‘ اور ’’ اذان ‘‘ سے متعلق بیان کو بنیاد بنا کر ادھوٹھاکرے کی حکومت پر نشانہ سادھے ہوئے ہیں ۔ نتیش رانے کا کہنا ہے کہ پولیس بس دس منٹ کے لیے ہٹ جائے تو اویسی کو اورنگ زیب کی قبر کے برابر میں گاڑ دیں گے ، وہ اویسی کے بیان کا ، اور اُ ن کے مطابق اویسی کی ’’ اشتعال انگیزی ‘‘ کا سارا الزام ریاستی سرکار کے سر پر ڈال رہے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ اس حکومت نے جس طرح سے نونیت رانا کو گرفتار کیا تھا کیا اویسی کو بھی گرفتار کرے گی ۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ نتیش رانے جیسا ہی ایک بیان ، شیوسینا کے سنجے راؤت اور ’ منسے ‘ کے گجانن کالے نے بھی دیا ہے ۔
اب تینوں ہی ہندوتووادی سیاسی جماعتیں ، شیو سینا ، بی جے پی اور ’ منسے ‘ ایک ہی زبان میں بولنے لگی ہیں ، ’’ لاؤڈاسپیکر ‘‘ اور ’’ اذان ‘‘ کے معاملہ پر ان کے درمیان جو اختلاف تھا ، جس سے ان کے درمیان ایک دوری بنی تھی ، وہ فی الحال بھلا دی گئی ہے ۔ اور یہ صرف اس لیے ہوا ہے کہ چھوٹے اویسی نے اورنگ آباد پہنچ کر ، راج ٹھاکرے کا نام لیے بغیر ، مگر واضح انداز میں ، اپنی بات کہی ، کہ لوگ سمجھ گیے ، بات راج ٹھاکرے ہی کی کی جا رہی ہے ۔ چھوٹے اویسی کے جملے تھے ،’’ جس کو گھر سے نکالا گیا ہے اور جس کی کوئی اوقات نہیں ہے ، جس کے پاس ایم پی نہیں ہے ،وہ بھونک رہے ہیں ، انہیں بھونکنے دیں ۔‘‘ یقیناً راج ٹھاکرے کو گھر سے نکالا گیا یا حالات ایسے بنا دیے گیے کہ انہیں شیو سینا چھوڑنا پڑا ، اور یہ بھی سچ ہے کہ سیاسی طور پر ان کی ساکھ بُری طرح سے متاثر ہوئی ہے ، ان کے پاس کوئی ایم پی نہیں ہے ۔ لیکن ایک سچ یہ بھی ہے کہ راج ٹھاکرے کی پارٹی اپنی ساکھ بچانے کے لیے چھوٹے اویسی کے بیان کو بنیاد بنا کر ریاست کے ماحول کو انتہائی فرقہ وارانہ بنا سکتی ہے ، ان میں ویسی ہی ’’ تقریری صلاحیت ‘‘ ہے جیسی کہ خود چھوٹے اویسی میں ہے ، یعنی وہ اپنی تقریر سے لوگوں کے جذبات بھڑکا سکتے ہیں ۔اویسی لاکھ کہیں ’’میں کسی کا گالی نہیں داوں گا ‘‘، لیکن ’’ کتا ‘‘ کہہ کر وہ کسی کو گالی ہی تو دے رہے ہیں ۔ ممبئی سمیت مہاراشٹر بھر میں مسلمانوں نے امن و امان کے قیام کے لیے ’’ لاؤڈ اسپیکروں ‘‘ اور ’’ اذان ‘‘ کے مسٔلے کو بڑی ہی حکمت عملی سے حل کیا ہے ، خود فجر کی اذانیں لاؤڈ اسپیکروں سے نہ دینے اور سپریم کورٹ کے حکم پر مکمل عمل کرنے کا اعلان کیا ہے ، اور اس اعلان نے راج ٹھاکرے کی فرقہ وارانہ سیاست کی ہوا نکالنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چونکہ سپریم کورٹ کے حکم کا حوالہ دیا گیا اس لیے راج ٹھاکرے کو مجبوراً یہ کہنا پڑا کہ بہت سے مندروں میں بھی غیر قانونی لاؤڈاسپیکر ہیں ، انہیں بھی بند ہونا چاہیے ۔ اور خود ریاستی سرکار نے سپریم کورٹ کے حکم کی مناسبت سے مندروں کے خلاف کارروائی کی ، نتیجتاً راج ٹھاکرے کے خلاف خود ہندوؤں میں ایک منفی ردعمل پیدا ہوا اور بی جے پی کو ، راج ٹھاکرے کی جانب بڑھتے قدموں کو واپس پیچھے لینے پر مجبور ہونا پڑا ۔ اب راج ٹھاکرے کا یہ حال ہو گیا ہے کہ ۵ ، جون کے روز ان کے ایودھیا کے دورے کی ، بی جے پی کی طرف سے ہی مخالفت شروع ہو گئی ہے ۔ قیصر گنج کے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ نے اعلان کیا ہے کہ وہ راج ٹھاکرے کو اس وقت تک ایودھیا میں گھسنے نہیں دیں گے جب تک وہ اتر بھارتیوں سے معافی نہیں مانگیں گے ۔ معافی کا یہ مطالبہ راج ٹھاکرے کی اتربھارتیوں کے خلاف چلائی گئی پر تشدد مہم کے لیے ہے ۔ بی جے پی دراصل لوگوں تک یہ پیغام پہنچانا چاہتی ہے کہ اس کا راج ٹھاکرے کے اس بیان سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ مندروں پر سے بھی غیر قانونی لاأڈ اسپیکر اتارے جائیں ۔ لیکن اب اویسی کے بیان نے راج ٹھاکرے کو ایک بار پھر سے سنبھلنے کا موقع فراہم کر دیا ہے ۔ چونکہ اب ’’ لاؤڈاسپیکر ‘‘ اور ’’ اذان ‘‘ کے ساتھ اورنگ زیب کا نام بھی اس قضیے میں شامل ہو گیا ہے ، اس لیے بی جے پی کو بھی راج ٹھاکرے کے ساتھ کھڑا ہونے کا ایک موقع مل گیا ہے ۔ بی جے پی کی نظر ریاست بھر کے بلدیاتی انتخابات پر ہے ، بالخصوص ممبئی میونسپل کارپوریشن کے الیکشن پر ۔ یاد رہے کہ ممبئی میونسپل کارپوریشن کا سالانہ بجٹ کسی چھوٹے ملک کے سالانہ بجٹ سے بھی کہیں زیادہ ہے ، اسی لیے ہر سیاسی پارٹی یہ چاہتی ہے کہ اس پر وہ قابض ہو جائے ۔ بی جے پی کی یہ پوری کوشش ہے ، اور راج ٹھاکرے کو وہ ، اس الیکشن میں خود کو کامیاب کرانے اور شیوسینا کو ہرانے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے ۔ اس کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں ، ایک تو یہ کہ اپنے امیدوار کو کامیاب کرانے کے لیے بی جے پی ، شیوسینا کے امیدواروں کے مقابل ’ منسے ‘ کے ایسے امیدوار کھڑے کروا سکتی ہے جو شیوسینا کے ووٹ کاٹ سکیں ، اور ووٹوں کی تقسیم کے نتیجے میں بی جے پی کا امیدوار جیت جائیں۔ ایک طریقہ راج ٹھاکرے اور ان کی پارٹی کے ذریعے شیوسینا اور ادھو ٹھاکرے پر الزام لگوانا بھی ہے ، تاکہ شیوسینا اور اس کے لیڈران کی ساکھ متاثر ہو ۔ ۲۰۱۹ ء کے الیکشن میں راج ٹھاکرے ریاست بھر میں ، بی جے پی بالخصوص نریندر مودی کے خلاف ، الزامات لگاتے نظر آئے تھے ، کہا جاتا ہے کہ ان سے یہ کام این سی پی قائد شردپوار نے کروایا تھا ۔ ریاست کے لوگ خوب جانتے ہیں کہ ، یہاں بی جے پی کو اگر کوئی ہرا سکتا ہے تو وہ ، شیو سینا ہی ہے ۔ یہ جان لیں کہ بی جے پی کو ہرانے کا دم ، یہاں نہ کانگریس میں ہے اور نہ ہی این سی پی میں ۔ خود بی جے پی کو بھی یہ پتہ ہے کہ اس کی ہار اور جیت کے درمیان اگر کوئی روڑہ ہے تو وہ شیوسینا ہی ہے ۔اسی لیے پہلے تو یہ کوشش کی گئی کہ کسی طرح شیوسینا کو منایا جائے ، پھر اس میں انتشار اور پھوٹ دالنے کا کھیل کھیلا گیا ، اور جب اس میں بھی ناکامی ہوئی تو ایجنسیوں کو پیچھے لگایا گیا ، پھر ’’ لاؤڈاسپیکروں پر اذان ‘‘ کا شوشہ چھوڑا گیا ، راج ٹھاکرے کو اس مقصد کے لیے سامنے لایا گیا ۔ لیکن شیو سینا اپنے قدموں پر کھڑی ہوئی ہے۔
شیوسینا کو خوب اندازہ ہے کہ اگر اس بار وہ بی جے پی کے چکر میں پھنسی تو کبھی بھی اس چکر سے باہر نہیں نکل سکے گی ، اور ایک دن آئے گا کہ اس کا وجود ختم ہو جائے گا ۔ تو یہ شیو سینا کی ، اپنے وجود کو بچانے کی لڑائی ہے ۔ اسے ممبئی کارپوریشن پر بھی اپنی پکڑ بنائے رکھنی ہے اور آئندہ کے اسمبلی الیکشن میں بھی مضبوطی کے ساتھ بی جے پی کا مقابلہ کرنا ہے ۔ اگر ایسے میں شیو سینا اور اس کی حلیف سیاسی جماعتوں کے سامنے ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا مسٔلہ کھڑا ہوتا رہے ، تو ایک تو عوامی رویہ بھی تبدیل ہوگا اور سیاسی طور پر کمزوری بھی آئے گی ۔ چھوٹے اویسی نے اورنگ زیب کے مزار کی زیارت کی شکل میں ایک گرما گرم موضوع بی جے پی اور منسے کو سونپ دیاہے ، اس کا ستعمال شیو سینا کو کمزور کرنے کے لیے بھی کیا جائے گا ، اور ممبئی میونسپل کارپوریشن پر قبضہ جمانے کے لیے بھی ۔ اورنگ زیب کے نام پر شیو سینا نہ بی جے پی سے پیچھے رہنا چاہے گی اور نہ ہی ’ منسے ‘ سے ، بلکہ شیوسینا ان دونوں کے مقابلے خود کو اس موضوع پر بات کرنے ، احتجاج اور مظاہرہ کرنے کی زیادہ حقدار سمجھتی ہے کہ اس کی سیاست اورنگ زیب کے ازلی دشمن شیواجی کے نام پر چلتی ہے ۔ گویا یہ کہ اب اورنگ زیب کے نام پر سیاست ہو گی ، اور نشانہ مسلمان ہی ہوں گے ، اور شیوسینا نہ بی جے پی کو روک سکے گی نہ ہی ’ منسے ‘ کو کیونکہ وہ خود بھی اس نام پر سیاست کرے گی ، اور ان دونوں سے بڑھ کر کرے گی ۔ ویسے سیاست شروع بھی ہو گئی ہے ۔ اورنگ زیب کو ’ ظالم ‘ اور ’ بدکار ‘ کہا جانے لگا ہے ۔ مراٹھوں اور مغلوں کے درمیان جنگ کی باتیں کی جانے لگی ہیں ۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مرکزی سرکار مغلوں کے نام پر جو سیاست کھیل رہی ہے وہی سیاست مہاراشٹر میں شروع ہو چکی ہے ۔ اور کارپوریشن کا الیکشن آتے آتے یہ سیاست پورے شباب پر ہوگی ۔ ووٹ خوب تقسیم ہوں گے اور بہت ممکن ہے کہ بی جے پی ممبئی میونسپل کارپوریشن پر قبضہ کے اپنے منصوبے میں کامیاب بھی ہوجائے ۔ اگر ایسا ہوا تو کوئی بھی مہاراشٹر پر قبضے سے بی جے پی کو نہیں روک سکے گا۔
اگر اکبر الدین اویسی خاموشی سے اورنگ زیب کے مقبرہ کی زیارت کرتے تو یہ معاملہ گرم نہ ہوتا ۔ تو کیا چھوٹے اویسی کو اس کا ندازہ نہیں تھا کہ اورنگ زیب کے مقبرہ پر حاضری کے بعد اگر انہوں نے کوئی اشتعال انگیز بیان دیا تو معاملہ سیاسی اور فرقہ وارانہ روپ لے لے گا ؟ یقیناً انہیں اندازہ تھا ، اور اگر انہیں نہیں تو ان کے اورنگ آباد کے رکن پارلیمنٹ امتیاز جلیل کو تو پتہ ہی تھا کہ معاملہ ایسا رخ اختیار کر سکتا ہے ، لہذٰا اگر یہ کہا جائے کہ سب جانتے بوجھتے ہوئے کیا گیا تو غلط نہیںہوگا ۔ یہ ’’ تماشہ ‘‘ یا یہ ’’ نورا کشتی ‘‘ مفادات کے حصول کے لیے ہیے ۔ اویسی برادران کی نظر بھی ممبئی میونسپل کارپوریشن پر ہے ،وہ بھی چاہتے ہیں کہ اتنی مالدار کارپوریشن میں ان کی بھی کچہ سیٹیں آ جائیں ۔ سچ یہی ہے کہ آج شاید ہی کسی بھی مسلم لیڈر میں اخلاص بچا ہو۔ اورنگ زیب کے مام پر بھلے مہاراشٹر کے مسلمان تباہ و برباد ہو جائیں انہیں کوئی پروا نہیں ہے۔
(بشکریہ: ممبئی اردو نیوز )