امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایران کی پاسدارانِ انقلاب کے گیسٹ ہاؤس کے اندر ہونے والے دھماکے سے ہلاک ہوئے ہیں اور ان کے کمرے میں دھماکہ خیز مواد لگ بھگ دو ماہ قبل نصب کیا گیا تھا۔
اسماعیل ہنیہ کی تہران میں ہلاکت کے ایک دن بعد بھی ایران نے ان کے قتل سے متعلق تفصیلات جاری نہیں کی ہیں۔ البتہ مختلف رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا جارہا تھا کہ ہنیہ کی موت کسی راکٹ یا ڈرون کے ذریعے فائر کیے گئے میزائل سے ہوئی ہے۔
البتہ جمعرات کو امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں مشرقِ وسطیٰ اور ایران میں اپنے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی موت ان کے کمرے کے اندر ہونے والے دھماکے کے باعث ہوئی ہے جہاں دو ماہ پہلے ہی دھماکہ خیز مواد چھپا دیا گیا تھا۔
دو ایرانی عہدے داروں سمیت مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے تعلق رکھنے والے سات سرکاری اہلکاروں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیویارک ٹائمز کو بتایا ہے کہ اسماعیل ہنیہ شمالی تہران کے جس گیسٹ ہاؤس میں قیام پذیر تھے وہ جس کمپاؤنڈ میں واقع ہے اس کا کنٹرول ایران کی سپاہِ پاسداران انقلاب کے پاس تھا۔ یہ کمپاؤنڈ کئی سرکاری عمارات کے ایک سلسلے کا حصہ ہے جسے ’نشاط‘ کہا جاتا ہے۔
مشرقِ وسطی کے سرکاری اہل کاروں نے ’نیویارک ٹائمز‘ کو بتایا ہے کہ ہنیہ جب بھی تہران کا دورہ کرتے تھے تو ان کا قیام اسی گیسٹ ہاؤس میں ہوتا تھا۔
امریکی اخبار کے مطابق قاتلانہ حملے کے لیے دھماکہ خیز ڈیوائس دو ماہ قبل ہی گیسٹ ہاؤس کے اس کمرے میں چھپا دی گئی تھی جہاں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ قیام پذیر تھے۔
’نیویارک ٹائمز‘ نے کہا ہے کہ پانچ عہدے داروں کے مطابق جب اس کمرے میں حماس کے رہنما کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی تو دھماکہ خیز مواد کو ریموٹ کنٹرول سے اڑا دیا گیا۔ دھماکے میں ہنیہ کے ساتھ موجود ان کے گارڈ کی بھی موت واقع ہوگئی تھی۔
اخبار کے مطابق دھماکہ مقامی وقت کے مطابق رات دو بجے پیش آیا جب کہ ایرانی حکام نے میڈیا کو اس کی اطلاع تقریباً سات بجے جاری کی۔
رپوٹ میں دو ایرانی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جیسے ہی دھماکہ ہوا تو گیسٹ ہاؤس کی پوری عمارت ہل گئی اور ایک بیرونی دیوار بھی گر گئی۔ نیویارک ٹائمز نے مذکورہ عمارت کی ایک مبینہ تصویر بھی شائع کی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دھماکے سے متاثرہ حصوں کو ڈھانپ دیا گیا ہے۔
ایران نے تاحال اس مقام کی کوئی تصویریا ویڈیو جاری نہیں کی ہے جہاں اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنایا گیا تھا اور نہ ہی سرکاری سطح پر واقعے کی تفصیلات فراہم کی ہیں۔ لیکن تہران کی جانب سے اسرائیل کو حملے کا ذمے دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔
راکٹ یا دھماکہ خیز مواد؟
اس سے قبل بدھ کو حماس کے سینئر رہنما اور اسماعیل ہنیہ کے قریبی ساتھی خلیل الحیہ نے تہران ہی ایک پریس کانفرس میں کہا تھا کہ جس عمارت میں ہنیہ موجود تھے وہاں کمرے میں انہیں براہِ راست راکٹ سے نشانہ بنایا گیا اور وہ راکٹ سیدھا ہنیہ کو لگا تھا۔
خلیل الحیہ بھی تہران میں موجود ہیں جہاں بدھ کو پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ یہ واضح ہے کہ وہ راکٹ ہی تھا جس سے عمارت کے شیشے، دروازے، کھڑکیاں اور چند ایک دیواروں کو بھی نقصان پہنچا۔
انہوں نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ کے ساتھ اس وقت جو عمارت میں موجود تھے انہوں نے اس راکٹ کو دیکھا ہے جب کہ دیگر معلومات ہم ایران پر چھوڑتے ہیں۔
خلیل الحیہ نے کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ ایران کے پبلک پراسیکیوٹر نے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جب کہ ایک تیکنیکی ٹیم جائے وقوعہ پر موجود ہے جو صورتِ حال کو دیکھ رہی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ کسی نتیجے پر پہنچیں گے۔
نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو میزائل حملے کے ذریعے ہلاک کرنے کی قیاس آرائیاں سامنے آئی ہیں۔ لیکن اخبار کے مطابق اسرائیل کے لیے ایران کے ایئر ڈیفینس سستم کو چکمہ دے کر ایسا کوئی حملہ کرنا شاید آسان نہ ہوتا۔
نیویارک ٹائمز کا دعویٰ ہے کہ ہنیہ کو قتل کرنے والوں نے ایرانی دفاع میں پائے جانے والے ایک سقم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہدف کو نشانہ بنایا اور انتہائی سخت سیکیورٹی والے ایک کمپاؤنڈ میں کئی ہفتے قبل ہی دھماکہ خیز مواد پہنچا دیا۔
رپورٹ کے مطابق ایرانی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ پر حملے میں استعمال کی گئی ٹیکنالوجی کا موازنہ 2020 میں ایرانی سائنسدان محسن فخری زادہ پر ہونے قاتلانہ حملے سے کیا جاسکتا ہے جس میں اسرائیل نے اے آئی سے کنٹرول ہونے والے روبوٹ ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔(سورس:وائس آف امریکہ)