کیا این چندرابابو نائیڈو کی پارٹی ٹی ڈی پی کے مسلم ایم ایل ایزمودی حکومت کے وقف بل کے حق میں ہیں؟ کیا وہ بل میں کی گئی دفعات کی حمایت کرتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو مودی حکومت نے وقف بل جے پی سی کو کیوں بھیجا؟
ان سوالوں کا جواب دینے سے پہلے جانتے ہیں کہ وقف بل کے حوالے سے کیا پیش رفت ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ کے حال ہی میں ختم ہونے والے بجٹ اجلاس میں، بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت نے لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل پیش کیا۔ اس پر اپوزیشن انڈیا الائنس نے احتجاج کیا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ ٹی ڈی پی کے مسلم اراکین بھی بل کی کئی دفعات پر شدید اعتراضات اٹھا رہے ہیں۔ ٹی ڈی پی بھی این ڈی اے حکومت کا اہم حصہ ہے-
ٹی ڈی پی اقلیتی سیل کے جنرل سکریٹری اور ممبر اسمبلی فتح اللہ محمد نے بل کے کچھ حصوں کو ‘تشویش ناک’ قرار دیا ہے اور اپنی پارٹی پر زور دیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں اس کی حمایت کرنے سے پہلے مسلم رہنماؤں سے مشورہ کرے۔
انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے فتح اللہ محمد نے خدشات کا اظہار کیا۔ اس سوال پر کہ وقف بل کے بارے میں ان کے خدشات کیا ہیں، فتح اللہ محمد نے کہا، ‘اس بل میں کم از کم 40 ایسے حصے ہیں جو مسلمانوں اور وقف بورڈ کے کام کاج کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ٹی ڈی پی نے بل کا خیر مقدم کیاہے لیکن مسودہ بل میں کی گئی تبدیلیاں تشویشناک ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘ترامیم کا مقصد قانون کو مضبوط کرنا ہے لیکن مسودے میں اس کے بجائے سب کچھ کمزور کیا جا رہا ہے۔ پانچ یا چھ اہم نکات ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔’انہوں نے انگریزی اخبار کو بتایا، ‘سنٹرل وقف کونسل میں دو مسلم ایم پیز کو ممبر بنانے کا پروویژن ہے۔ یہ قاعدہ ختم کر دیا گیا ہے اور دو خواتین کو ممبر بنانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اس کے مسلمان ہونے کی حقیقت کو دور کر دیا گیا ہے۔ وقف بورڈ کا کام مساجد اور درگاہوں جیسے مذہبی مقامات کا تحفظ وانتظام کرنا ہے اس کو غیرمسلموں کو کیسے دے سکتے ہیں ۔’
انہوں نے کہا، "وقف ٹربیونل کو کمزور کرنا، جو حکومت کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے اور اس کی سربراہی ایک موجودہ یا ریٹائرڈ جج کرتا ہے، تنازعہ کا ایک اور نکتہ ہے۔ ٹریبونل اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ وقف املاک کو تجاوزات سے محفوظ رکھا جائے۔ اب، بل یہ اختیارختم کر دیتا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ریاستی حکومت کے حکم پر عمل کریں، اس سے وقف زمین پر ‘کلکٹر راج’ شروع ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ریاستی وقف بورڈ میں دو غیر مسلموں کو شامل کرنے کی تجویز وقف کے مقصد کو ختم کر دیتی ہے، ہمیں اندیشہ ہے کہ یہ ترامیم وقف املاک پر مزید تجاوزات کا باعث بنیں گی۔
چندرا بابو نائیڈو کی کیا رائے ہے؟
اس سوال پر ٹی ڈی پی ایم ایل اے فتح اللہ محمد نے کہا، ‘ہم ٹی ڈی پی میں بل میں ترمیم کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم اس کے خلاف نہیں ہیں، لیکن ہم محسوس کرتے ہیں کہ وقف بورڈ کو تبدیلیوں کے ذریعے مضبوط کیا جانا چاہیے نہ کہ اس کے برعکس۔ …میں نے یہ مسئلہ اپنے ارکان پارلیمنٹ اور پارٹی قیادت کے ساتھ اٹھایا اور جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری ایم عبدالرفیق، اسسٹنٹ سکریٹری انعام الرحمن اور ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر حسیب الرحمن سے ملاقات کی تاکہ اپنے تحفظات پر تبادلہ خیال کریں۔ ہمارے ارکان پارلیمنٹ نے وزیراعلیٰ سے رابطہ کیا جنہوں نے انہیں بل مشترکہ کمیٹی کو بھیجنے کا مشورہ دیا۔
اگرچہ ٹی ڈی پی این ڈی اے میں شراکت دار ہے، ہمیں لگتا ہے کہ بحث و مباحثے کی گنجائش ہے، جس کا نتیجہ سب کے لیے قابل قبول ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ نائیڈو ہمارے خدشات کو سمجھتے ہیں اور بل کو مشترکہ کمیٹی کو بھیجنے کا مشورہ دیا۔
واضح ہوکہ آندھرا پردیش کی آبادی کا تقریباً 12-13% مسلمان ہیں، اس لیے ٹی ڈی پی اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ وہ مجوزہ بل کے ‘متنازعہ’ حصوں کی حمایت کرکے کمیونٹی کو ناراض نہ کرے۔ ریاست کے رائلسیما علاقے میں مرکوز یہ کمیونٹی ٹی ڈی پی کا ایک اہم ووٹ بینک سمجھا جاتا ہے اور حال ہی میں منعقدہ اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات میں اس کی بھاری اکثریت سے جیت کو یقینی بنانے میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔