صرف تین ماہ کی ریم ابو حیّہ اپنے خاندان کی واحد رکن تھی جو پیر کو غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فضائی حملے میں زندہ بچی۔ شمال کی طرف چند میل (کلومیٹر) کے فاصلے پر محمد ابوالقمصان اپنی بیوی اور جڑواں بچوں سے محروم ہو گئے جن کی عمر صرف چار دن تھی۔
اور زندہ بچ جانے والوں میں سے کچھ اتنے کم عمر ہیں کہ فوت شدہ لوگوں کی کوئی یاد ان کے ذہن میں محفوظ نہ ہو گی۔
پیر کے اسرائیلی حملے میں جنوبی شہر خان یونس کے قریب ایک گھر تباہ ہو گیا جس میں 10 افراد ہلاک ہو گئے۔ ہلاک شدگان میں ابو حیہ کے والدین اور پانچ بہن بھائی شامل ہیں۔اس کی خالہ سُعاد ابو حیہ نے کہا، "اس بچی کے علاوہ خاندان کا کوئی فرد نہیں بچا۔”
جس حملے میں ابوالقمصان کی اہلیہ اور نوزائیدہ بچے – ایک لڑکا عصر اور ایک لڑکی ایسل – ہلاک ہوئے، اس میں جڑواں بچوں کی نانی بھی لقمۂ اجل بن گئیں۔ تقریباً سکتے کے عالم میں ایک ہسپتال میں بیٹھے ابوالقمصان نے جڑواں بچوں کے پیدائشی سرٹیفکیٹ اٹھا رکھے تھے۔
ان کی اہلیہ جومانہ عرفہ جو ایک فارماسسٹ تھیں، نے چار دن قبل سی سیکشن کے ذریعے بچوں کو پیدائش دی تھی اور انہوں نے فیس بک پر جڑواں بچوں کی آمد کا اعلان کیا تھا۔ منگل کو وہ مقامی حکومت کے ایک دفتر میں پیدائش کے اندراج کے لیے گئے ہوئے تھے۔
جب وہ وہاں تھے تو ہمسایوں نے فون کیا کہ وسطی شہر دیر البلح کے قریب جس گھر میں وہ پناہ گزین تھے، وہاں بمباری ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا، "میں نہیں جانتا کہ کیا ہوا تھا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک گولہ تھا جو گھر پر گرا۔”
اسرائیلی فوج نے ان حملوں پر تبصرے کی درخواست کا فوری جواب نہیں دیا۔غزہ میں وزارتِ صحت نے کہا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اس علاقے میں 115 نومولود بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔
دوسری طرف اسرائیلی فوج کہتی ہے کہ وہ فلسطینی شہریوں کو نقصان پہنچانے سے گریز کرتی ہے اور شہری ہلاکتوں کے لیے حماس کو موردِ الزام قرار دیتی ہے۔
اسرائیل کی جارحیت نے ہزاروں بچوں کو یتیم کر دیا ہے – اور یہ اتنی زیادہ تعداد ہے کہ مقامی ڈاکٹر ان کا اندراج کرتے وقت ایک مخفف استعمال کرتے ہیں: ڈبلیو سی این ایس ایف یا "زخمی بچہ، خاندان کا کوئی فرد زندہ نہیں بچا”۔ اقوامِ متحدہ نے فروری میں اندازہ لگایا تھا کہ غزہ میں اب تقریباً 17,000 بچے لاوارث ہیں اور اس کے بعد سے یہ تعداد میں اضافے کا امکان ہے۔
ابو حیہ کا خاندان ایک ایسے علاقے میں پناہ گزین تھا جسے اسرائیل نے حالیہ دنوں میں چھوڑ دینے کا حکم دیا تھا۔ یہ ایسے کئی احکامات میں سے ایک تھا جس کی وجہ سے سینکڑوں ہزاروں افراد اسرائیل کے اعلان کردہ انسانی ہمدردی کے زون میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے جو ساحل کے ساتھ خراب اور پُرہجوم خیمہ بستیوں پر مشتمل ہے۔
غزہ کی آبادی کی اکثریت اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگ چکی ہے۔ صرف 25 میل (40 کلومیٹر) طویل اور تقریباً سات میل (11 کلومیٹر) چوڑی ساحلی پٹی کو مئی سے اسرائیلی افواج نے مکمل طور پر سیل کر دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ کا تقریباً 84 فیصد علاقہ اسرائیلی فوج کی طرف سے انخلاء کے احکامات کے تحت رکھا گیا ہے۔
کئی خاندانوں نے انخلاء کے احکامات نظر انداز کر دیئے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ کوئی بھی جگہ محفوظ محسوس نہیں ہوتی یا اس لیے کہ وہ پیدل ایک دشوار سفر کرنے سے قاصر ہیں یا اس لیے کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ جنگ کے بعد بھی اپنے گھروں کو واپس نہ جا سکیں گے۔
ابوالقمصان اور ان کی اہلیہ نے جنگ کے ابتدائی ہفتوں میں غزہ شہر کو خالی کرنے کے احکامات پر عمل کیا تھا۔ انہوں نے فوج کی ہدایت کے مطابق وسطی غزہ میں پناہ لی تھی۔