تحریر:شکیل رشد
بالآخر ڈاکٹر ذاکر نائک کی تنظیم’اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن ‘(آئی آر ایف) پر مرکزی حکومت نے باضابطہ پابندی کا اعلان کردیا ہے ۔ آئی آر ایف کو ملک کی سلامتی اور امن وامان کے لئے خطرہ بتایا گیا ہے …..حالانکہ ممبئی میں رہتے ہوئے، ایک صحافی کی حیثیت سے میں نے آئی آر ایف اور ڈاکٹر ذاکر نائک کی کوئی ایسی حرکت نہیں دیکھی جسے ملک کی سلامتی اور امن وامان کے لیے خطرہ مانا جاسکے ۔
ادھر ایک عرصے سے ڈاکٹر ذاکر نائک اور ان کی تنظیم پرطرح طرح کے الزامات لگتے رہے ہیں اور چونکہ ان الزامات کی روشنی میں ہی مرکزی حکومت ، وزارت داخلہ اور ایجنسیاں مذکورہ نتیجے پر پہنچی ہیں ، اس لیے اب اس فیصلے کو تسلیم کیا جانا چاہئے… اگر یہ فیصلہ ڈاکٹر ذاکر نائک کی نظر میں درست نہیں ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ اس کے خلاف قانونی لڑائی لڑیں…. حالانکہ حکومت سے قانونی لڑائی لڑنا ، اور پابندی کی حالت میں ،اگر ناممکن نہیں تو بہت ہی مشکل ضرور ہے۔
آئی آر ایف کا ذکر اس لیے آگیا کہ اس ملک میں مزید کئی ایسی جماعتیں اور ایسی تنظیمیں ہیں جنہیں ملک کی سلامتی کے لیے بھی اور امن وامان کے لیے بھی خطرہ کہا جاسکتا ہے ، لیکن وہ کھلے عام دندناتی پھرتی ہیں ، شرانگیزی اور تشدد کرتی ہیں ، پابندی تو دور ان کے خلاف معمولی کارروائی تک نہیں کی جاتی … کیا گروگرام میں نمازیں روکنے والی ’ ہندوتوادی‘ تنظیمیں امن وامان کے لیے خطرہ نہیں ہیں ؟ کیا وی ایچ پی اور بجرنگ دل جیسی تنظیمیں اس ملک کے ایک بڑے طبقے کے لیے خطرہ نہیں ہیں ، اور جب ایک بڑے طبقے کے لیے خطرہ ہیں تو کیا ملک کی سلامتی کے لیے وہ خطرہ نہیں ہیں ؟
وہ تنظیمیں جو بم دھماکوں میں ملوث رہی ہیں ، مثلاً ’ ابھینو بھارت‘ ’سناتن سنستھا‘ اور ’ ہندو جن جاگرن سمیتی‘؟ آئی آر ایف پر پابندی کے مسلمان مخالف نہیں ہیں ، حکومت نے چھان بین کراکر اگر یہ محسوس کیا کہ یہ تنظیم سلامتی اور امن وامان کے لیے خطرہ ہے ، تو مسلمان اسے قبول کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیوں مذکورہ ’ہندوتوادی‘ جماعتوں اور تنظیموںکو امن وامان میں خلل ڈالنے کی ، ماب لنچنگ کرنے کی ، مساجد کو شہید کرنے کی ، اور راہ چلتے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو دہشت زدہ کرنے کی چھوٹ ہے ، کیوں ان پر کارروائی نہیں کی جاتی، پابندی نہیں لگائی جاتی ؟ یہ سوال برسوں سے پوچھے جارہے ہیں ، مگر ان کے جواب نہیں ملے ، اسی لیے اس ملک کے مسلمان اور دیگر اقلیتیں یہ کہتی ہیں کہ ان کے ساتھ جانبدارانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے … کیا یہ سچ نہیں ہے ؟