ڈھاکہ:بنگلہ دیش کی سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کو حکومت سے بے دخل کرنے والے طلبہ مظاہرین نے فوری انتخابات کے انعقاد کا ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق بنگلہ دیش میں طلبہ کی تحریک کو ‘جنریشن زی’ کے انقلاب کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور اب تحریک کے رہنما ملک میں اصلاحات کے لیے اپنی سیاسی جماعت بنانے پر غور کر رہے ہیں۔
طلبہ تحریک کے دو مرکزی رہنما ناہد اسلام اور آصف محمود عبوری کابینہ میں اہم پوزیشن پر ہیں۔ عبوری کابینہ کے سربراہ کے لیے ڈاکٹر محمد یونس کا نام بھی طلبہ نے ہی دیا تھا۔
طالب علم رہنما محفوظ عالم کہتے ہیں کہ طلبہ تحریک کے رہنما ٹو پارٹی سسٹم کے خاتمے کے لیے سیاسی جماعت کے قیام پر مشاورت کر رہے ہیں۔
محفوظ عالم قانون کے طالب علم ہیں اور وہ حکومت اور سماجی گروپس کے درمیان رابطہ قائم کرنے کے لیے تشکیل دی گئی ایک کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کی آرٹس فیکلٹی کے دروازے پر کھڑے ہو کر خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ طلبہ تحریک کے رہنما کوئی بھی سیاسی پلیٹ فارم بنانے سے پہلے عام ووٹرز سے رائے لینا چاہتے ہیں۔
محفوظ عالم کے مطابق لوگ دو سیاسی جماعتوں سے تھک چکے ہیں اور وہ ہم پر اعتماد کرتے ہیں۔
اس سے قبل طلبہ تحریک کے سیاسی مستقبل سے متعلق کچھ رپورٹ نہیں ہوا تھا۔
گزشتہ 30 برس کے دوران بنگلہ دیش پر شیخ حسینہ کی عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی کی خالدہ ضیا کی حکومت ہی رہی ہے۔ دونوں خواتین کی عمریں 70 برس سے زائد ہے۔
شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے لیے سرگرم طلبہ تحریک کے کوآرڈینیٹر تہمید چوہدری کہتے ہیں طلبہ کے سیاسی جماعت بنانے کے بہت امکانات ہیں اور وہ اپنے پروگرام پر کام کر رہے ہیں۔
ان کے خیال میں اگر سیاسی جماعت بنی تو اس کی بنیاد سیکولرازم اور آزادیٔ اظہار پر ہو گیبین الاقوامی مذاہب کے 24 سالہ گریجویٹ اسٹوڈنٹ تہمید نے مزید کہا کہ سیاسی جماعت بنائے بغیر ہمارے پاس ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے جس کے ذریعے موجودہ سیاسی
اسٹیٹس کو توڑا جا سکے۔
وائس آف امریکہ کے مطابق بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں شامل طلبہ نے الیکٹورل سسٹم میں اصلاحات اور ادارتی تبدیلیوں کے سوا کوئی واضح پالیسی پیش نہیں کی ہے کہ آیا وہ کس پالیسی پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں۔
البتہ عبوری کابینہ میں شامل وزیرِ ٹیلی کمیونی کیشن ناہد اسلام کہتے ہیں کہ ان کی تحریک کا مقصد نئے بنگلہ دیش کا قیام تھا، ایسا ملک جہاں کوئی فاشسٹ اور ظالم حکمراں دوبارہ واپس نہ آ سکے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اصلاحات کا یقین دلاتے ہیں جس میں لازمی طور پر کچھ وقت لگے گا۔
ناہد اسلام نے کہا کہ حکومت عوامی لیگ اور بی این پی کی جانب سے انتخابات کرانے کے مطالبے پر غور نہیں کر رہی۔
عبوری حکومت کے قیام کے بعد طلبہ کے دباؤ پر بنگلہ دیش کے چیف جسٹس، سینٹرل بینک کے گورنر اور پولیس چیف سمیت دیگر کئی عہدیدار اپنے عہدوں سے استفعیٰ دے چکے ہیں۔
عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر یونس کے ترجمان نے معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔
عبوری کابینہ میں بطور وزیرِ خارجہ شامل توحید حسین نے ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ طلبہ نے ٹیکنو کریٹس کے ساتھ اپنے سیاسی منصوبے کے بارے میں کوئی بات چیت نہیں کی ہے۔
ان کے بقول، سیاسی منظر نامہ بدلنے والا ہے کیوں کہ ہم نے نوجوان نسل کو ایک عرصے تک سیاست سے دور رکھا ہے۔
قانونی ماہر شاہدین ملک کہتے ہیں اس وقت ہم قانونی اور سیاسی بے یقینی کی صورتِ حال کا شکار ہیں کیوں کہ موجودہ عبوری حکومت کے اختیارات سے متعلق آئین میں کوئی شق نہیں ہے۔
امریکہ میں مقیم شیخ حسینہ کے بیٹے سجیب واجد جوئے کہتے ہیں بنگلہ دیش میں سیاسی جماعتیں کہیں نہیں جا رہیں اور آپ ہمیں سیاسی منظر نامے سے نہیں ہٹا سکتے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ جلد بدیر عوامی لیگ یا بی این پی ایک مرتبہ پھر اقتدار میں واپس آئے گی۔ آپ ہمارے اور ہمارے حامیوں کے بغیر بنگلہ دیش میں استحکام نہیں لا سکتے۔