بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے ہزاروں کارکنوں اور رہنماؤں نے منگل 17 ستمبر کو ملکی دارالحکومت ڈھاکہ میں ریلی نکالی اور انتخابات کے ذریعے اقتدار کی منتقلی کا مطالبہ کیا۔
یہ مظاہرہ ڈھاکہ میں بی این پی کے صدر دفتر کے سامنے کیا گیا جہاں اس جماعت کے حامی جمع ہوئے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے نعرے بازی کی۔ بی این پی کی سربراہی سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء کر رہی ہیں۔
نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے الیکشن کمیشن سے لے کر مالیاتی اداروں تک ملک کے مختلف شعبوں میں اصلاحات کے لیے متعدد منصوبے شروع کیے ہیں۔ لیکن بی این پی سمیت بڑی سیاسی جماعتیں جلد ہی نئے انتخابات چاہتی ہیں۔محمد یونس نے گزشتہ ماہ عوامی بغاوت کے بعد سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے ملک سے فرار ہونے کے بعد اقتدار سنبھالا تھا۔ اس طرح حسینہ واجد کی 15 سالہ مدت اقتدار ختم ہو گئی تھی۔
یہ مظاہرے جولائی میں شروع ہوئے اور حکومت مخالف تحریک کی شکل اختیار کر گئے۔ بنگلہ دیش سے فرار ہوکر حسینہ واجد بھارت چلی گئی تھیں، جہاں وہ اب تک قیام کیے ہوئے ہیں۔
عبوری انتظامیہ کو ملک کی طاقتور فوج کی مدد حاصل ہے مگر اسے کئی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں گارمنٹس انڈسٹری کے شعبے میں مزدوروں کی بے چینی، ملک میں عدم استحکام، امن و امان اور غیر یقینی معاشی صورتحال شامل ہیں۔
یونس نے اپنی حالیہ تقاریر میں یہ نہیں بتایا کہ نئے عام انتخابات کب ہوں گے بلکہ انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت تک اقتدار میں رہیں گے جب تک عوام چاہتے ہیں کہ وہ رہیں۔ اخبارات کے ایڈیٹروں کی ایک ٹیم نے حال ہی میں کہا تھا کہ یونس کو پہلے اہم اصلاحات مکمل کرنی چاہییں اور کم از کم دو سال تک اقتدار میں رہنا چاہیے۔
بی این پی نے ابتدائی طور پر تین ماہ کے اندر انتخابات کا مطالبہ کیا تھا لیکن بعد میں کہا کہ وہ عبوری حکومت کو اصلاحات کے لیے وقت دینا چاہتی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی بھی، جو کبھی باضابطہ طور پر خالدہ ضیاء کی پارٹی کی اتحادی تھی، انتخابات سے قبل یونس کی قیادت والی حکومت کو مزید وقت دینا چاہتی ہے۔