نئی دہلی: (آر کے بیورو)آخر وہ خبر آگئی جس کا سب کو شدت سے انتظار تھا جمعیت علمائے ہند (ارشد مدنی )کی طرف سے عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون سے متعلق داخل پٹیشن کی سماعت سپریم کورٹ جلد کرے گی ،اس نے تاریخ بھی طے کردی ہے
واضح ہو ملک کے مختلف حصوں میں مساجد میں مندر کے دعوو ں کا تنازعہ بڑھتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں عدالتی حکم کے بعد اتر پردیش کے سنبھل ضلع میں واقع شاہی جامع مسجد کا سروے کیا گیا، جس کے بعد خوریز تشدد پھیل گیااور پانچ جانیں چلی گئیں اس سب کے درمیان سپریم کورٹ نے اب عبادت گاہوں کی حفاظت اور 1991 میں بنائے گئے قانون سے متعلق عرضی پر سماعت کرنے کا اشارہ دیا ہے۔
••اس تاریخ پر سماعت
عبادت گاہوں کی حفاظت اور 1991 میں بنائے گئے قانون سے متعلق سپریم کورٹ میں دائر درخواست کی سماعت آئندہ ماہ یعنی 4 دسمبر کو ہونے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کی سربراہی والی بنچ اس اہم کیس کی سماعت کرے گی۔
••یہ جج سنیں گے
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس پی نرسمہا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ عبادت گاہوں کی حفاظت اور 1991 میں بنائے گئے قانون سے متعلق عرضیوں کی سماعت کرے گی۔ جمعیۃ علماء ہند اور گلزار احمد نور محمد اعظمی کے نام اس کیس میں عرضی گزار کے طور پر درج ہیں۔ ان کے وکیل اعجاز مقبول عدالت میں اپنا کیس پیش کریں گے۔
عبادت گاہ ایکٹ کیا ہے؟
ملک میں عبادت گاہوں کے ایکٹ 1991 میں یہ انتظام تھا کہ مذہبی مقامات کو اسی شکل میں برقرار رکھا جائے گا جس طرح وہ آزادی کے وقت تھے۔ عبادت گاہوں کا ایکٹ ایک قانون ہے جو 15 اگست 1947 کو موجود کسی بھی عبادت گاہ کے کردار کو تبدیل کرنے سے منع کرتا ہے۔ مذہبی مقامات کے مالکانہ حقوق سے متعلق تنازعات کو ختم کرنا۔
عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کی حقیقی پاسداری نا ہونے کی وجہ سے سنبھل جیسے واقعات ہندوستان میں رو نما ہورہے ہیں جس پر روک لگانا ضروری ہے۔پلیس آف ورشپ قانون 1991 ہوتے ہوئے بھی مسلم عبادت گاہوں کے سروے کرنے کا حکم نچلی عدالتیں جاری کررہی ہی جو اس قانون کی خلاف ورزی ہے ۔ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کی حفاظت اور اس کے موثر نفاذ کے لیئے جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کی تھی جس پر گذشتہ ایک سال سے سماعت نہیں ہوسکی ہے، سبکدوش چیف جسٹس آف انڈیا ڈاکٹر ڈی وائی چندر چوڑ نے اس اہم مقدمہ پر سماعت کرنے کی بجائے مرکزی حکومت کو حلف نامہ داخل کرنے کے لیئے کئی مرتبہ مہلت دی تھی جس کے نتیجے میں اس مقدمہ کی سماعت نہیں ہوسکی لیکن اب سنبھل واقعہ رونما ہونے کے بعد جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ آف انڈیا سے اس اہم مقدمہ پر جلداز جلد سماعت کئے جانے کی گذارش کی ہے ۔ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے سپریم کورٹ آف انڈیا کے رجسٹرار کو ایک خط تحریر کرکے اس اہم مقدمہ کو چیف جسٹس آف انڈیاکے روبرو پیش کرنے کی گذارش ک