تحریر:مرزا اے بی بیگ
نیا سال نئی امیدوں اور امنگوں کی نوید ہوتا ہے لیکن جب سال کے پہلے ہی دن انٹرنیٹ پر آپ کی بولی لگائی جائے تو آپ کو کیسا محسوس ہو گا اور کچھ ایسا ہی بھارت میں چند مسلم خواتین کے ساتھ ہوا ہے۔ اس عمل کے خلاف سوشل میڈیا پر سخت تنقید کی جا رہی ہے اور اسے عورت مخالف اور اسلاموفوبک کہا جا رہا ہے۔
معروف صحافی عصمت آرا نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’ایک مسلم خاتون کے طور پر آپ کا نئے سال کو خوف اور کراہت کے ساتھ شروع کرنا بہت افسوسناک ہے۔ یقیناً یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ’سلی ڈیلز‘ کے نئے روپ کی صرف میں ہی واحد شکار نہیں ہوں۔ ایک دوست نے صبح یہ اسکرین شاٹ بھیجی ہے۔ ہیپی نیو ایئر۔‘
واضح رہے کہ نئے سال پر بھارت میں متعدد مسلم خواتین کو ’بُلی بائی یا بُلی ڈیلز‘ کے تحت نشانہ بنایا گیا ہے جو کہ عصمت آرا کے مطابق ’سلی ڈیلز‘ کا ہی ایک روپ ہے۔ عصمت آرا نے اس کے خلاف دہلی پولیس کے سائبر سیل میں شکایت درج کرائی ہے، جس کے نتیجے میں سوشل میڈیا پر مسلم خواتین کی بولی لگانے کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’پولیس نے ایف آئی آر درج تو کرلی ہے لیکن تعزیرات ہند کی کن شقوں کے تحت درج کی ہے اس کا ابھی علم نہیں۔‘
سلی ڈیلز کیا ہے؟
گزشتہ برس بقر عید کے موقع پر سوشل میڈیا پر متعدد مسلم خواتین کی تصاویر کے ساتھ ایک اوپن سورس ایپ بنائی گئی جس کا نام ’سُلی فار سیل‘ رکھا گیا۔ سُلی ایک توہین آمیز اصطلاح ہے جو مسلم خواتین کے لیے استعمال کی گئی۔
اس ایپ میں استعمال ہونے والی مسلمان خواتین کی معلومات ٹوئٹر سے لی گئی۔ اس میں 80 سے زائد خواتین کی تصاویر ان کے نام اور ٹوئٹر ہینڈلز دیے گئے تھے۔
اس ایپ کے اوپری حصے میں لکھا تھا ’فائنڈ یور سلی ڈیل۔‘ اس پر کلک کرنے پر ایک مسلمان خاتون کی تصویر، نام اور ٹوئٹر ہینڈل کی تفصیلات صارفین سے شیئر کی جا رہی تھیں۔ اس اوپن سورس ایپ کو گٹ ہب پر تیار کیا گیا جو انٹرنیٹ ہوسٹنگ کمپنی ہے تاہم بعد میں اسے گٹ ہب نے ہٹا دیا تھا۔
اسی طرح اب ’بُلی ڈیلز یا بلی بائی‘ سامنے آئی ہے جس میں ایپ کے اوپر لکھا ہے ’یور بُلی بائی آف دی ڈے‘ اور پھر اس خاتون کا ٹوئٹر ہینڈل اور تصویر دی گئی ہے۔
سوشل میڈیا پر بحث
مہاراشٹر میں بر سر اقتدار شیو سینا پارٹی کی رکن پارلیمان پرینکا چترویدی نے عصمت آرا کے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’میں نے بارہا آئی ٹی وزیر ایشونی ویشنو سے کہا ہے کہ سلی ڈیلز جیسے پلیٹ فارم کے خلاف سخت کارروائی کی جائے جس کے ذریعے عورتوں سے نفرت اور عورتوں فرقہ وارانہ طور پر شکار بنانے کے واقعات بھرے پڑے ہیں۔ شرم کی بات ہے کہ اسے اب تک نظر انداز کیا جا رہا ہے۔‘
پرینکا چترویدی نے کہا کہ انھوں نے ممبئی پولیس کے کمشنر اور ڈی سی پی کرائم رشمی کراندیکر جی سے اس بارے میں بات کی ہے۔ پرینکا چترویدی کے مطابق اس بارے میں انھوں نے ڈی جی پی مہاراشٹر سے بھی بات کی ہے اور انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ’عورت سے نفرت کرنے والی اور صنفی امتیاز پر مبنی سائٹس کے پس پشت لوگوں کو گرفتار کیا جائے گا۔‘
بہر حال پرینکا چترویدی کے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے وزیر آئی ٹی ایشون ویشنو نے لکھا کہ ’گٹ ہب نے تصدیق کی ہے کہ اس نے آج صبح اسے بلاک کر دیا ہے۔ سی ای آر ٹی اور پولیس حکام مزید اقدام کے لیے تعاون کر رہے ہیں۔‘
سوشل میڈیا پر بہت سی خواتین اور مرد بھی اس کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔
آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا: ’کم از کم 100 بااثر مسلم خواتین کی تصاویر ڈالی گئی ہیں۔‘ انھوں نے مزید لکھا: wannabesigmaf کے ٹوئٹر ہینڈل نے اس کے بارے میں ٹویٹ کیا تھا۔ پرانے لنکس اور ڈیلیٹ کیے ہوئے ٹویٹس کے اسکرین شاٹ ہیں۔ ٹوئٹر کے لیے یہ بہت آسان ہے کہ اس کا پتا چلائے۔ کیا کوئی ممبئی پولیس میں شکایت نہیں کر سکتا؟‘
انھوں نے ایک دوسرے ٹویٹ میں لکھا کہ ممبئی پولیس میں اس لیے شکایت کی جائے کہ ایک کرکٹر کی بچی کو جب دھمکی دی گئی تو تین چار دن میں ایک ملزم کو گرفتار کر لیا گیا لیکن ’گذشتہ سال کی جانے والی شکایت پر آپ نے دہلی پولیس کی جانچ کو دیکھ لیا ہے۔‘
معروف صحافی اور ریڈیو جاکی صائمہ نے ٹویٹ کیا کہ ’سُلی ڈیلز کی طرح اس قابل نفرت بُلی ڈیلز میں مجھ سمیت بہت سی مسلم خواتین کا نام ہے۔ یہاں تک کہ نجیب کی والدہ کو بھی نہیں بخشا گیا۔ یہ انڈیا کے شکستہ نظام انصاف کا غماز ہے۔ کیا ہم خواتین کے لیے سب سے غیر محفوظ ملک بنتے جا رہے ہیں؟‘
واضح رہے کہ نجیب دہلی کے معروف تعلیمی ادارے جے این یو کے طالب علم تھے جو کئی سال قبل پراسرار انداز میں غائب ہو گئے اور ان کا اب تک کوئی سراغ نہیں لگ سکا جبکہ ان کی والدہ نے انھیں تلاش کرنے کے لیے کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی کمیونسٹ لیڈر کویتا کرشنن نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ پولیس کی دانستہ بے عملی ہے جس کے نتیجے میں سلی ڈیلز والے دہشت گردوں کی جرات بڑھ گئی ہے اور وہ بلی بائی کے نام سے پھر ابھرے ہیں۔‘
ایکٹوسٹ اور صحافی ودیوت نے مسلم خواتین کی حمایت میں اسی طرح کی اپنی بھی ایک پوسٹ بنائی اور لکھا کہ ’آکشن می ٹو‘ یعنی میری بولی بھی لگاؤ اور پھر سلی ڈیلز کے طور پر ’یور سلی ڈیل آف دی ڈے‘ کے ساتھ اپنا ٹوئٹر ہینڈل اور اپنی تصویر ڈالی ہے۔
بہت سے لوگوں نے مسلم خواتین سے معافی مانگی اور کہا ہے کہ ایک ہندو کے طور پر ہم شرمندہ ہیں کہ آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہے جبکہ ایسے بھی بہت سے صارف ہیں جو خواتین کی اس بے حرمتی کو ہندو مسلم کی عینک سے دیکھ رہے ہیں۔
ایک صارف نے انڈیا کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر کے ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ ’جب ہندو خواتین کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو وہ کچھ کیوں نہیں بولتے۔‘
’ڈر کا ماحول اور تمام حدیں پار‘
بی بی سی ہندی کی ہماری ساتھی کیرتی دوبے نے کہا کہ سوشل میڈیا پر کسی خاتون کی ٹرولنگ کرنا یعنی ذاتی حملے کرنا یا اس کا مذاق اڑانا معمول بنتا جا رہا ہے اور گذشتہ چند مہینوں کے دوران اس میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جبکہ انڈیا کی مسلم خواتین کو ہراساں کرنے کی تمام حدید پار کی جانے لگی ہیں۔
عصمت آرا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈر کا ماحول پیدا ہو گیا ہے، پہلے بھی اس طرح کی باتیں ہوئیں اور ایف آئی آر بھی درج کی گئی لیکن ان کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا اس لیے ان کا حوصلہ بڑھنے لگا۔ حکومت کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے لیکن ابھی تک ہمیں ایسی کوئی بھی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’گذشتہ سال جب ساری دنیا کووڈ- 19 کی زد میں حیران و پریشان تھی تو عید کے موقعے پر پہلی بار انٹرنیٹ کے ایک پورٹل پر اعلانیہ طور پر مسلم خواتین کی بولی لگائی گئی۔ ان میں ان خواتین کو نشانہ بنایا گیا جو مسلمان ہیں اور سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں اور اپنی بات بے باکی کے ساتھ کہتی ہیں۔ اس وقت پاکستان کی بھی چند خواتین کو نشانہ بنایا گیا تھا لیکن زیادہ تر انڈیا کی خواتین تھیں۔‘
’پھر اس کے بعد بقرعید کے موقعے پر بہت سی خواتین کو نشانہ بنایا گیا جس میں 15 اور 16 سال کی لڑکیاں بھی شامل تھیں جن کا میں نام نہیں لے سکتی۔ ان کو آن لائن فروخت کیا جا رہا تھا جیسے بازار میں چیزیں فروخت ہوتی ہیں۔ یہ وومن ٹریفکنگ کا سنگین عالمی مسئلہ ہے جسے عالمی پیمانے پر سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بقرعید کے وقت جب یہ قابل مذمت معاملہ سامنے آيا تھا تو ایف آئی آر درج کی گئی تھی لیکن اس پر کوئی عمل ہوا ہو یہ سامنے نہیں آیا۔ کوئی چارچ شیٹ داخل نہیں ہوئی۔ ایک قدم کی بھی پیشرفت نہیں ہوئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بقرعید کے وقت جب یہ قابل مذمت معاملہ سامنے آيا تھا تو ایف آئی آر درج کی گئی تھی لیکن اس پر کوئی عمل ہوا ہو یہ سامنے نہیں آیا۔ کوئی چارچ شیٹ داخل نہیں ہوئی۔ ایک قدم کی بھی پیشرفت نہیں ہوئی۔‘
(بشکریہ: بی بی سی : یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)