ٹی این نیانن
ابھی ووٹنگ کے تمام مراحل مکمل نہیں ہوئے ہیں ، انتخابی نتائج کا اندازہ لگانا ایک پر خطر کام ہے۔ بہر حال پوری انتخابی تشہیری مہم کے طریق کار کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی مغربی بنگال اور آسام میں دوڑ میں آگے ہے۔ دوسرے لفظوں میں، دوسری پارٹیوں کا ہدف بی جے پی کو شکست دینا ہے۔ اگر آپ دور تک سوچتے ہیں تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ جیتپائے گی یا نہیں۔ اس بار نہیں تو اگلی بار بی جے پی مغربی بنگال میں کامیابی حاصل کرہی لے گی۔ وہ پہلے ہی آسام اور زیادہ تر شمال مشرق میں اقتدار میں ہے۔ زبان اور ثقافت کے لحاظ سے ہندی پٹی سے الگ خطہ کے لئے یہ ایک بہت بڑی سیاسی تبدیلی ہے۔
خطہ مشرق کوآہستہ آہستہ جیتا گیا ہے:
بہار میں گزشتہ اسمبلی انتخابات نے بی جے پی کو حکمراں اتحاد کا ایک اہم شراکت دار بنا دیا ، حالانکہ نتیش کمار وزیر اعلیٰ بنے ہوئے ہیں۔ اڈیشہ میں نوین پٹنائک کی عمر گھٹنے والینہیں ہے اور ان کی صحت بھی ٹھیک نہیں رہتی ہے ، لیکن وہ اپنے اپنے جانشین کو آگے کرنا دور اس کانام تک بتانے سے گریز کررہے ہیں۔ ریاست میں بی جے پی ان کی اصل حریف بن گئی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ باقی جگہوں پر ہونے والی کہانی بھی یہاں دہرائی جائے گی ، یعنی ایک فرد یا ایک پریوارپر منحصر پارٹیوں کو بی جے پی ختموصاف کردے گی۔
تقریباً پورا شمال اور مغربی ہندوستان اس کے زیر کنٹرول ہے اور آج بی جے پی 1980 کی دہائی میں جتنی مضبوط تھی اس سے زیادہ ہی مضبوط آج بی جے پی نظر آرہی ہے۔ اس کی مضبوطی میں ممتا بنرجی جیسوںکی غلطیوں نے مدد کی ہیں ۔
انہوں نے کمیونسٹوں کی منظم تشدد اور پارٹی پر مبنی بدعنوانی کے مدعے پر مقابلہ کیا، لیکن آج ان پر وہی دو الزام لگائے جارہے ہیں اور ساتھ میں مسلم کارڈ کھیلنے کا بھی الزام لگایا جارہا ہے۔
ادھر مہاراشٹر میں ریاست کی پولیس اور سیاسی سسٹم کے ساتھ ملی بھگت جو کشمکش کی صورت حال ہے اس سے مہا گٹھ بندھن کو بدنام کردیا ہے۔