’’میں تو یتیم ہوگئی ہوں لیکن میں ان لوگوں کے بارے میں سوچتی ہوں جو انڈیا کی ریاست کے یتیم ہیں۔‘‘
یہ الفاظ تھے بین الاقوامی شہرت کی حامل صحافی برکھا دت کے جن کے والد کورونا وائرس میں مبتلا ہو کر وفات پاگئے ہیں۔
معروف صحافی برکھا دت نے اپنے والد کی کووڈ سے وفات پر بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حکومت کی ‘غفلت، سنگدلی اور نااہلی کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کا غم تازہ ہے لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ اس پر بات کرنا ضروری ہے۔
برکھا دت نے کہا کہ ‘ریاست کے یتیم سے ان کی مراد ان کروڑوں غریب عوام سے ہے جن کے بارے میں وہ خبریں دیتی رہی ہیں کہ انھیں اسپتالوں میں جگہ نہیں مل رہی اور وہ ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال کے دھکے کھا رہے ہیں۔
بھارت میں اس سنگین صورت حال میں گزشتہ دس دنوں سے روزانہ اس مرض میں مبتلا ہونے والوں کی سرکاری تعداد تین لاکھ سے زیادہ ہے۔ میڈیا کے ادارے اسے نظام کی ناکامی قرار دے رہے ہیں اور مودی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔
ادھرمعروف مصنفہ ارون دتی رائے نے بدھ کے روز برطانوی اخبار گارجین میں اپنے ایک طویل مضمون میں لکھا ہے کہ ’یہ نظام کی ناکامی نہیں بلکہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ ملک میں کوئی نظام تھا ہی نہیں۔‘
’میرا دم گھٹ رہا ہے میرا کوئی علاج کرو‘
امریکی نشریاتی ادارے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے برکھا دت نے اپنے والد کے کووڈ میں مبتلا ہونے کے بعد ان کی موت کے حالات بتاتے ہوئے بھارت کے سنگین حالات کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے والد کے آخری الفاظ تھے ’میرا دم گھٹ رہا ہے میرا کوئی علاج کرو۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ ایک بااثر صحافی ہیں، ان کا تعلق بھارت کی ‘اپر مڈل کلاس یا ایسے طبقے سے ہے جس کے پاس پیسہ ہے وسائل ہیں اور وہ خود ڈاکٹروں کو جانتی ہیں اور بہتریں اسپتالوں کے اخراجات برداشت کر سکتی ہیں لیکن وہ اپنے والد کو بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک نجی اسپتال کی ایمبولینس جو ان کے والد کو اسپتال لے جانے کے لیے آئی اس کا آکسیجن کا سلنڈر کام نہیں کر رہا تھا، ’اس میں تربیت یافتہ طبی عملہ نہیں تھا‘۔ انہوں نے کہا کہ ایمبولینس کو اسپتال پہنچنے میں تاخیر ہوئی کیونکہ ملک کے دارالحکومت دہلی میں ابھی تک ایمبولینس کے لیے سڑکوں پر کوئی ‘گرین لین یا خصوصی لین نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسپتال تک پہنچتے پہنچتے ان کے والد کے جسم کی آکسیجن خطرناک حد تک کم ہو گئی تھی اور انھیں سیدھے انتہائی نگہداشت کے شعبے میں لے جایا گیا جہاں سے وہ واپس نہیں آ سکے۔
آخری رسومات میں مشکل
برکھا دت کہتی ہیں جب ان کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے لے جایا گیا تو وہاں کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہاں ’تین فیملیوں کے درمیان ہاتھا پائی شروع ہو گئی کیوں کہ چتا جلانے کے لیے وہاں دستیاب ایک پلیٹ فارم کے لیے بہت سے لوگ انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اپنے والد کا کریا کرم کرنے کے لیے انھیں پولیس کی مدد حاصل کرنا پڑی۔انہوں نے کہا کہ غم کے اس لمحے میں جب چند بامعنی جملے ادا کرنا مشکل ہو رہا ہے وہ بات کر رہی ہیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ وہ بہت سے لوگوں سے خوش قسمت ہیں۔
’ میں بھارت کی ریاست کے بہت سے یتیموں سے بہت خوش قسمت ہوں۔‘
انہوں نے کہا وہ ان فیملیوں کے بارے میں سوچ رہی ہیں جن سے ان کی ملاقات شمشان گھاٹ پر ہوئی جہاں لاشیں فرش پر پڑی تھیں۔انہوں نے بتایا کہ وہاں ان کی ملاقات ایک لڑکے سے ہوئی جس کا کہنا تھا کہ ‘ہم اب بھگوان بھروسے ہیں۔ ہم سے کوئی بات کرنے والا نہیں ہے۔
برکھا دت نے برطانوی نشریاتی ادارے آئی ٹی وی کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ صورت حال ‘ہماری غفلت، سنگدلی اور نااہلی کا نتیجہ ہے۔
اس سوال پر کہ بھارت میں تو یہ کہا جا رہا تھا کہ اس نے کووڈ- 19 کی وبا پر قابو پالیا ہے، برکھا دت نے کہا کہ بھارت نے بہت جلدی ہی اس وبا کے خلاف فتح کا اعلان کر دیا تھا۔
’انڈیا غافل اور سنگدل ہو گیا‘
برکھا دی کہتی ہیں کہ ‘ہم غافل ہو گئے کیونکہ ہم نے سمجھا کہ برے دن گزر گئے، ہم سنگدل ہو گئے کیونکہ اس کشت و خون میں ہمارے ہاں انتخابی ریلیاں منعقد کی جا رہی ہیں، مذہبی اجتماعات ہو رہے ہیں اور ہزاروں لاکھوں لوگوں کے اجتماعات ہو رہے ہیں۔
انہوں نے انڈیا کی سنگین صورت حال کو بیان کرنے کے لیے انگریزی زبان کا لفظ ‘ carnage’ استعمال کیا، جس کے مطلب اردو میں خون خرابہ یا کشت و خون ہی بنتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ یہ لفظ نہایت ذمہ داری سے استعمال کر رہی ہیں کیونکہ ’آپ دیکھ رہے ہیں کہ شمشان گھاٹوں میں لاشیں قطاروں میں پڑی ہیں، لوگ سڑکوں پر مر رہے ہیں اور وہ اس وبا سے نہیں مرے بلکہ علاج نہ ملنے کی وجہ سے مر رہے ہیں اوربھارت کی سڑکوں پر خون بہہ رہا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’آخر میں نااہلیت ہے‘ اور یہاں بات کرتے ہوئے وہ کئی سوالات اٹھاتی ہیں۔ وہ پوچھتی ہیں کہ کیوں ’ویکسین لگانے کا پروگرام اتنا سست روی کا شکار رہا۔ انہوں نے اس عرصے میں دو ماہ ضائع کر دیے۔ ویکسین کیوں باہر بھیجی جاتی رہی؟‘
اپنے ذاتی تجربے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ‘کہ میں ذاتی طور اپنے آپ کو یتیم محسوس کرتی ہوں۔ اپنے والد کے چلے جانے کے بعد، میرے دونوں والدین باقی نہیں رہے۔ میرا کوئی نہیں رہا، میں تنہا محسوس کرتی ہوں۔ لیکن ان کے بارے میں کیا جو انڈیا کی ریاست کے یتیم ہیں۔
(بشکریہ بی بی سی اردو)