کوزی کوڈ:
کیا کمیونسٹ بھی اب رام کا سہارا لینے پر مجبور ہیں تاکہ سنگھ کا مقابلہ کیا جاسکے، یہ تاثر 31جولائی ٹائمس آف انڈیا کی ایک رپورٹ کی شرارت انگیز ہیڈنگ سے ہوتا ہے، حالانکہ کی خبر اس کے بالکل برعکس اور کمیونسٹوں کی طرف سے ایک بہتر کوشش کا آغاز ہے۔ سی پی آئی کی ملاپورم یونٹ نے ایک آن لائن ڈسکوری سیریز منعقد کی جس میں بقول اس کے عظیم شعری تخلیق رامائن کے قدیم متن کے مختلف پہلوؤں پر شرکاء کو جانکاری دی گئی،اس میں پارٹی کے ریاستی سطح کے لیڈروں نے شرکت کی اور تقاریر کیں۔اس کا مرکزی موضوع تھا ’رامائن اور ہندوستانی ورثہ‘
دراصل یہ ہندوتوا بنام ہندوتوا کی لڑائی کا ہے۔ کمیونسٹوں کو لگ رہا ہے کہ سنگھ ہندو مذہب پر کاپی رائٹ سمجھتا ہے، جبکہ دیگر سیاسی پارٹیاں منقسم ہیں ،رامائن ہندو ثقافت و روایات کا حصہ ہے ۔ پارٹی لیڈر پی کے کرشنا داس کا کہنا ہے کہ ہم یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ جدید ترقی یافتہ دور میں اسے کیسے پڑھا اور سمجھا جائے۔ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق اس گفتگو مختلف عنوانات میں بانٹا گیا، جیسے رامائن میں ہم عصر سیاست،داس کا کہنا ہے کہ ہم نے پایا کہ رامائن میں شامل سیاست سنگھ پریوار کے طرزعمل سے بہت مختلف ہے۔بھگوان رام کو متضاد قوتوں کے سنگم کے طور پر دکھا یا گیا ہے۔شاعر لیلا کرشن نے کہاکہ کمیونسٹوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کے رامائن فرقہ پرستوں کے ہاتھوں کا آلہ کار نہ بن جائے ۔ہم اس کے متنوع ورژن کو اجاگر کرکے رامائن کی فاشسٹ تشریحات کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔