تحریر: شاہین نظر
ہندوستان میں صحافت کی ابتداء 1780میں ہکیز بنگال گزٹ سے ہوئی تھی جو کہ انگریزی زبان میں نکلا تھا جبکہ دیسی زبان میں نکلنے والا پہلا اخبار سماچار درپن تھا جو کہ بنگلہ زبان میں تھا اور 1818میں شروع ہوا، یعنی بنگال گزٹ کے اڑتیس سال بعد۔ اردو اخبار جام جہاں نما دوسرا دیسی اخبار تھا جس کا اجراء 1822 میں ہوا، اسی مناسبت سے ہم لوگ اس سال اردو صحافت کا دو سو سالہ جشن منا رہے ہیں۔ گزشتہ دو صدی کی صحافتی تاریخ کا جائزہ لیجئے تو اندازہ ہوگا کہ ہمارے ملک میں صحافت کا معیار تیسری دنیا کے تقریباً تمام ہی ملکوں کے مقابلے میں بہت اونچا ہے، بلکہ اکثر ترقی یافتہ ملکوں کے ہم پلّہ ہے۔ یہ حقیقت ہمارے لئے اطمینان کا باعث ہے کہ اس کامیابی اور کامرانی میں اردو صحافیوں کی خدمات بھی شامل ہیں، خصوصاً جب ہم تحریک آزادی میں ان کی قربانیوں اور ان کے کارناموں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمارا سر فخر سے اونچا ہو جاتا ہے۔ نہ صرف جد و جہد آزادی میں بلکہ آزادی ملنے کے بعد ملک کی تعمیر نو میں بھی ان لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور نامساعد حالات میں بھی اپنی روایت برقرار رکھی۔
آج جب ہم اپنے پیش روؤں کو یاد کر رہے ہیں اور اُن کی چھوڑی ہوئی میراث کا جشن منا رہے ہیں تو ہمارے اس زریں باب پر بہت کچھ لکھا اور بولا جائے گا۔ ماضی کے سنہرے دور کو یاد کیا جائے گا۔ ہمارے اجداد کتنے نڈر اور بے باک تھے اور انہوں نے کیسی کیسی پریشانیاں اور تکلیفیں جھیلیں اس کا ذکر ہوگا۔ قوم سے یہ شکایت بھی ہوگی کہ ان کی قربانیوں کو بھلا دیا گیا اور حکومت وقت سے یہ شکوہ بھی کہ سرکاری پالیسیوں میں اردو کو اس کے جائز حق سے محروم رکھا گیا۔ یہ تمام باتیں اہم ہیں۔ ان پر گفتگو ہونی چاہئے۔ مگر میں اُن حقائق پر روشنی ڈالنا چاہوں گا جن پر ممکن ہے جشن کے ماحول میں بات کرنا رہ جائے۔میرے سامنے موجودہ دور میں اردو صحافت کو درپیش کچھ چیلنجز ہیں جنہیں میں ذیل میں پیش کر رہا ہوں اور آخر میں اپنی ناقص رائے بھی اس امید پر کہ اہل علم و ہنر اس پر توجہ فرمائیں گے۔
نوے کی دہائی میں نافذ اکنامک لبرلائزیشن اور پھر انٹرنیٹ کے پھیلاؤ کے نتیجے میں ہندوستان کی میڈیا انڈسٹری میں انقلابی تبدلیاں رونما ہوئیں جس کا فائدہ دیگر زبانوں کی طرح اردو کو بھی ہوا۔ پہلے ترسیل کا ذریعہ اخبارات و رسائل تک محدود تھا کیونکہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر سرکار کی اجارہ داری تھی۔ پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز کا دور آیا تو اس نے اردو کے لئے بھی نئے مواقع فراہم کئے۔ حالیہ برسوں میں ڈیجیٹل میڈیا کی مقبولیت نے بھی اردو صحافت کو نئے امکانات سے روشناس کرایا ہے۔
اردو قارئین کی کمی
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اردو صحافت کو ان نئی تبدیلیوں کا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ مجھے اس بارے میں شبہ ہے۔ اردو اخبارات کی اگر بات کریں تو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ قارئین کا ہے جن کی تعداد دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہمیں اس پر بات کرنی چاہئے اور اس کا حل تلاش کرنے کی فکر کرنی چاہئے۔ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ جس میں مڈل کلاس اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ بطور خاص شامل ہے اردو اخبار نہیں پڑھتا ہے۔ اس سلسلے میں میں دو سروے کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ پہلا سروے2019کا ہے جو میں نے دہلی کے بیس مسلم آبادی والے علاقوں اور ہریانہ کے پانچ مسلم آبادی والے شہروں میں کروایا۔ اس کے نتیجوں پر لکھا گیا میرا مضمون ہفتہ وار ریڈینس اور ماہنامہ ماس میڈیا میں شائع ہوا جس کو بنیاد بنا کر خبر رساں ادارہ یو این آئی نے ایک رپورٹ بھی چلائی۔ اس سروے سے یہ انکشاف ہوا کہ محض 22 فیصد مسلمان اردو اخبار پڑھتے ہیں جبکہ ہندی اخبار پڑھنے والوں کی تعداد چوالیس فیصد ہے۔ 23 فیصد ایسے مسلمان ملے جو ہندی اور اردو دونوں اخبارات پڑھتے ہیں، اگر اس تعداد کو صرف اردو اخبار پڑھنے والوں کی تعداد سے ملا دیا جائے (23+22) تو پینتالیس فیصد مسلمان، بالفاظ دیگر آدھے سے بھی کم مسلم آبادی اردو اخبار پڑھتی ہے۔ اسی طرح اگر ہندی-اردو کی تعداد کو صرف ہندی اخبار پڑھنے والوں سے ملا دیا جائے (23+44) تو 67 فیصد مسلمان آبادی ہندی اخبار پڑھتی ہے۔ اس سروے میں دیگر امور کا بھی احاطہ کیا گیا تھا جس کا ذکر یہاں پر ضروری نہیں مگر جو نتیجہ اس سے اخذ ہوا وہ یہ تھا کہ عام مسلمانوں کی دلچسپی اردو اخبارات میں نہیں ہے اور مسلم علاقوں میں بھی ہندی کے اخبارات کا ہی دبدبہ ہے۔ دوسرا قابل غور نتیجہ یہ سامنے آیا کہ ہندی اخبارات کے چوراسی فی صد قارئین کو یہ احساس ہے کہ ہندی اخبارات انہیں نظر انداز کرتے ہیں اور ان کے بارے میں کبھی کچھ لکھتے بھی ہیں تو ان کا انداز منفی ہوتا ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت اگر ہندی اخبارات پڑھتی ہے تو اس کی کیا وجہ ہے اس پر بھی بات ہونی چاہئے۔
(حوالہ:http://www.mediastudiesgroup.org.in/issues/mass-media-april-2019/
ایک دوسرا سروے 2010میں جے این یو کے ایک ریسرچ اسکالر شاہد السلام نے کیا تھا جس میں پچاس ایسے مسلمانوں کو انٹرویو کیا گیا جو پروفیسر، ڈاکٹر، انجینئر اور آئی اے ایس اورای پی ایس وغیرہ تھے۔ معلوم ہوا کہ ان پچاس میں سے صرف چھ لوگ اردو اخبار کے خریدار تھے۔ چار ایسے تھے جو کبھی کبھی اخبار خریدتے تھے، اور نو ایسے تھے جو پڑھنے میں دلچسپی تو رکھتے تھے مگر اس کے لئے خرچ کرنا نہیں چاہتے تھے۔ (حوالہ: دہلی میں عصری اردو صحافت – تصویر کا دوسرا رُخ از شاہد السلام)۔
ٹیلنٹ کا فقدان
اردو اخبارات میں آپ کو ایسے لوگ مشکل سے ملیں گے جو صحافت کو پیشہ کے طور پر اپنانے کا فیصلہ کر کے آئے ہوں گے. چند گنے چنے اخبارات کو چھوڑ کر غالب اکثریت ایسے اخبارات کی ہے جو اپنے یہاں کام کرنے والوں کو مناسب اجرت دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ انہیں با صلاحیت لوگ نہیں مل پاتے۔ آج کا زمانہ اسپیشیلائزیشن کا ہے۔انگریزی اور دیگر زبانوں کے اخبارات میں کام کرنے والے صحافی یونیورسٹیز اور میڈیا انسٹیٹیوٹس سے صحافت کی ڈگری اور ٹریننگ لے کر آرہے ہیں۔ اردو اخبارات میں آپ کو ایسے لوگوں کا فقدان ملے گا۔ اس کا اثر ہمارے ذریعہ کی جانے والی صحافت پر پڑ رہا ہے۔ اردو اخبارات میں عام طور پر رپورٹرز نہیں رکھے جاتے اور جو ایڈیٹرز بحال کئے جاتے ہیں ان کا وقت انگریزی اخبارات سے ترجمہ کرتے گزرتا ہے۔ ان کے پاس نہ اتنا وقت ہوتا ہے نہ ہی ایسی صلاحیت کہ مختلف موضوعات پر قلم اٹھا سکیں۔ سائنس اور معاشیات جیسے موضوعات پر لکھنے والے صحافی کسی اردو اخبار میں آپ کو خال خال ہی ملیں گے۔
مسائل تو اور بھی ہیں مگر میرے اس مضمون کا مقصد ہرگز بھی اپنی زبان کی محرومیاں گنوانا نہیں اس لئے یہاں رُک کر اپنی گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔ قارئین میں کمی آنے کی دو بنیادی وجہیں ہیں، ایک تو عام مسلمانوں کی اردو زبان میں عدم دلچسپی، دوسرے اردو اخبارات کا گھٹتا ہوا معیار۔ اردو اخبار پڑھ کر آپ کی اخبار پڑھنے کی ضرورت پوری نہیں ہوتی اس لئے آپ کو انگریزی یا کم سے کم ہندی کا اخبار بھی خریدنا پڑتا ہے۔
چند گزارشات
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کی ترویج و اشاعت کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کو پھر سے فعال کیا جائے اور اردو کو مقبول عام بنانے کی مہم چھیڑی جائے، ساٹھ اور ستّر کی دہائی میں انجمن ترقی اردو نے یہ کام کیا جو کم از کم صوبہ بہار کی حد تک تو بہت کارگر ثابت ہوا۔ ہمیں اگر زندہ قوم کی طرح جینا ہے تو اپنی زبان کو بھی زندہ رکھنا ہوگا۔ تبھی اس میں نکلنے والے اخبارات و رسائل بھی پھلے پھولیں گے۔
اردو کو زندہ رکھنے میں ہمارے دینی مدارس ایک اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ اردو صحافیوں کی بڑی تعداد یا تو ان مدارس سے آتی ہے یا اردو میڈیم اسکولوں سے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مدرسہ فارغین کے لئے مدرسوں میں ہی صحافت کی چھ ماہ یا سال بھر کی تعلیم کا انتظام کر دیا جائے۔ اس طرح ان کے لئے ملازمت کے مواقع بڑھیں گے اور اردو اخبارات کو، اور اردو کے ٹیلی ویژن چننلز اور آن لائن پورٹلس کو بھی، ٹرینڈ پروفیشنلز ملیں گے۔ ایک خوش آئند پہلو یہ ہے کہ گزشتہ بیس تیس سالوں میں مسلمانوں کے بیچ سے تربیت یافتہ صحافیوں کی ایک کھیپ نکلی ہے جو نیشنل میڈیا میں مختلف سطحوں پر پائی جاتی ہے اور ملی طور پر بیدار ہے۔مدرسہ فارغین کی تربیت کے لئے ان کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔
(مصنف نے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کالج کے زمانے میں ہفتہ وار ارود بلٹز کے لئے رپورٹنگ سے کیا تھا۔ بعد میں ٹائمز آف انڈیا سمیت دبئی اور جدّہ کے انگریزی اخبارات سے وابستہ رہے۔ ان دنوں انڈیا ٹوڈے میڈیا انسٹی ٹیوٹ، نوئیڈا میں وزیٹنگ فیکلٹی ہیں، اس سے پہلے شاردا یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں صحافت پڑھاتے رہے ہیں۔)