(ایجنسیاں، العربیہ)جنوری میں عقبہ جبر پناہ گزین کیمپ کے نوجوانوں پر مشتمل گروپ نے اسرائیلی آباد کاروں میں مقبول اریحا کے ایک ریستوران پر حملہ کیا
حماس کے مسلح ونگ کا نام استعمال کرنے والے ان دونوں نوجوانوں ابراہیم اور رافت کے والد وائل عودات نے کہا کہ "وہ اس لمحے تک القسام کے رکن نہیں تھے۔” "ان کی زندگی عام لوگوں کی طرح تھی۔”
ان کی کہانی مقبوضہ مغربی کنارے میں تشدد میں حالیہ اضافے کے دوران ایسی اچانک کارروائیوں اور پہلے سے کام کرتی فلسطینی مزاحمتی تحریکوں یا نئے گروپوں سے وابستگی کے پیچیدہ تعلق کی عکاسی کرتی ہے۔ تشدد کی اس لہر نے 1980 اور 2000 کی مانند ایک نئے فلسطینی انتفاضہ کے خدشات کو ہوا دی ہے۔مرکزی دھارے میں شامل فلسطینی قیادت سے الگ تھلگ اور سوشل میڈیا کے دور میں پرورش پانے والے فلسطینیوں کی نئی نسل نے نابلس میں واقع ”عرین الاسود” سے لے کر ”جنین بریگیڈ” تک کئی عسکریت پسند گروپوں کو جنم دیا ہے۔
پچھلے ایک سال کے دوران مغربی کنارے میں ابھرنے والی یہ عسکریت پسند تنظیمیں جو بعض اوقات مٹھی بھر افراد پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ان کا حماس، فتح یا اسلامی جہاد جیسے گروپوں سے محض غیررسمی سا تعلق ہوتا ہے۔
حماس کے کارکن، جس نے اسرائیلی انتقامی کارروائیوں کے خوف سے اپنا نام ظاہر کرنے سے انکار کر دیا، کہا کہ "یہ تمام علامات ہیں کہ انتفاضہ آ رہا ہے۔” "لوگوں کی ایک نئی نسل ہے جو یقین رکھتی ہے کہ واحد حل مسلح جدوجہد ہے۔”
ٹک ٹاک، پوسٹرز اور گانےفلسطین میں پہلے سے قائم شدہ گروپوں کی خود ساختہ شاخیں پھیل رہی ہیں۔ جیسے کہ عقبہ جبر بٹالین جو عودات برادران اور ان کے دوستوں نے تشکیل دی تھی۔ اور کچھ عرصہ پہلے اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔
اس ماہ جینین میں ایک ریلی کے دوران ایک نقاب پوش نوجوان مزاحمت کار نے کہا کہ "آج ہمارے پاس ایک نئی نسل ہے جو مزاحمت سے واقف ہے، اور یہ قابض اسرائیل کی وحشت کو جانتی ہے۔”
"نوجوان نے کہا کہ اس نسل کو گرفتاری، زخموں یا شہادت کا خوف نہیں ہے۔ یہ اب کسی چیز سے خوفزدہ نہیں ہے۔
بغیر کسی مرکزی قیادت کے، یہ گروپ اپنے پیغام کو ترانوں، ٹک ٹاک ویڈیوز اور دیواروں پر مزاحمت کاروں کی تصویروں والے پوسٹروں کے ذریعے پہنچاتے ہیں۔
اسرائیلی فوجی اور آباد کاروں کی طرف سے بار بار کی گئی تذلیل پر مضطرب نوجوانوں کے لیے یہ خود کو مثال پیش کرتے ہیں۔
گذشتہ سال کے دوران۔اسرائیلی کاروائیوں میں 200 سے زیادہ فلسطینی شہید ہوئے- صرف اس سال مغربی کنارے اور یروشلم میں تقریباً 80 فلسطین اور 40 سے زیادہ اسرائیلی اور غیر ملکی شہری مارے جا چکے ہیں
فلسطینی عسکریت پسندوں کی نئی نسل تنظیم سازی کے لیے سوشل میڈیا کو مؤثر طریقے سے استعمال کر رہی ہے۔
اگرچہ باقاعدہ قیادت کی کمی کے باعث نئے گروپوں کی جانب توجہ کم ہو گئی ہے، تاہم اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ان کی بے ساختہ قسم کی تنظیمی نوعیت اور تنہا حملہ آوروں کی بڑی تعداد، جن کا عسکریت پسندوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، نے ان پر قابو پانا بہت مشکل بنا دیا ہے۔
احمد غنیم جن کے دو بھائی جنوری میں ایک اسرائیلی حملے میں شہید ہو گئے تھے نے کہا کہ مجھے اب کس بات کا ڈر نہیں ہے۔ میں اپنے ہتھیار اٹھا کر فوج کے خلاف کھڑا ہوں،”وہ 3 مارچ کو جینین کے پناہ گزین کیمپ میں جینین بریگیڈ کے بانی کے اعزاز میں منعقدہ پریڈ میں شریک تھے۔
یہ ریلی طاقت کا ایک شاندار مظاہرہ تھا، جس میں مختلف تنظیموں کے تقریباً 250 مزاحمت کار ایک صحن میں پریڈ کر رہے تھے، اس کی دیواروں پر شہدا کی تصویریں بنی ہوئی تھیں جن کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں اور ان کے بال مغربی کنارے کے نوجوانوں میں مقبول انداز میں تراشے گئے تھے۔
چار دن بعد، اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے کیمپ پر چھاپہ مارا، جس میں کم از کم چھ مزاحمت کا شہید ہو گئے، ان میں 26 فروری کو حوارہ فائرنگ میں ملوث حماس کے کارکن بھی شامل تھے
یہ تلخی اب بنیاد پرست حلقوں سے نکل چکی ہے اور نسبتاً خوشحال فلسطینیوں کو بھی متاثر کرتی ہے، جیسا کہ عودات برادران، جو تعلیم یا امکانات سے محروم نوجوانوں کے دائرے میں نہیں آتے
فلسطینی نوجوانوں کو قدم قدم پر پابندیوں اور رکاوٹوں اور جبر کا سامنا ہے جو ان کو انتقامی کاروائیوں پر ابھارتا ہے۔