تحریر:ایڈووکیٹ ابوبکرسباق سبحانی
صحافت یا جرنلزم ہمارے سماج کا ایک اہم ترین ادارہ ہے، بلکہ ہمارے جمہوری ملک میں صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون تسلیم کیا جاتا ہے، صحافت کو عام زبان میں پریس بھی کہا جاتا ہے، پریس کی آزادی کسی بھی جمہوری ملک میں اہم ترین آزادی کی حیثیت رکھتی ہے، یہ آزادی ایک اہم مقصد کے تئیں فراہم کی جاتی ہے اور وہ ہے کہ کسی بھی طرح کے حقائق کو عوام کے سامنے لانے سے کوئی روک نہیں سکے، نیز جمہوری حکومت کی کسی بھی پالیسی پر عوام سوال کرسکیں کیونکہ جمہوری نظام حکومت میں عوام ہی حکومت کا انتخاب کرتی ہے اور اصولی طور پر حکومت عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔ بیشک پریس کی آزادی کے ساتھ ساتھ اس کی جواب دہی بھی اتنی ہی ضروری ہے تاکہ آزادی کے ساتھ ملے ہوئے اختیارات کا ناجائز استعمال ہونے کے اندیشوں کو کم کیا جاسکے، آزادی سے پہلے انگریز حکومت نے متفرق قوانین کی تدوین کے ذریعے اس آزادی پر قدغن لگانے کی کوششیں کیں، ان قوانین کا بنیادی مقصد میڈیا کی حدود کو طے کرنا، حکومت اور اس کی پالیسیوں کے خلاف میڈیا و پریس کو آواز اٹھانے کے حق کو مشروط کرنا نیز حکومتی نظم و نسق میں کسی پریس اہمیت و حیثیت کو منضبط کرنا تھا۔
1947 میں ہمارا ملک آزاد ہوگیا لیکن صحافت و پریس سے متعلق قوانین میں کوئی خاص ترمیم یا تنسیخ عمل میں نہیں آئی، صحافت کے میدان سے براہ راست متعلق قوانین میں پہلا پریس ریگولیشن قانون گیگنگ ایکٹ 1857 ہے، انڈین پریس ایکٹ 1910، ورناکولر پریس ایکٹ1878، آفیشیل سیکریٹ ایکٹ 1923، پریس اینڈ رجسٹریشن آف بکس ایکٹ 1867، ینگ پرسنس (ہارم فل پبلکیشنس) ایکٹ 1956، ڈیلیوری آف بکس اینڈ نیوزپیپرس ایکٹ 1954، کاپی رائٹ ایکٹ 1957، پریس کونسل آف انڈیا ایکٹ 1965 اہم ہیں۔ ان تمام ہی قوانین کے باوجود ہمارے ملک میں دیگر پیشوں کی طرح ہی صحافت کے میدان سے وابستہ افراد کے لئے بھی ضابطہ اخلاق کی صورت میں کچھ بنیادی اصول و ضوابط مرتب کئے جانے ضروری محسوس کئے گئے ہیں، یہ بنیادی طور پر ایک دستور کی اہمیت رکھتے ہیں تاکہ سماج میں امن و امان کو برقرار رکھا جاسکے، ایک دوسرے کے بنیادی و دستوری حقوق کو تحفظ فراہم کیا جاسکے، انسانی احترام و سماجی اقدار کی حفاظت ہوسکے، لیکن ان اصول وضوابط کے ساتھ ہی اخلاقیات کا پاس ولحاظ رکھنا بھی ایک اہم سماجی ذمہ داری ہے، چنانچہ ضابطہ اخلاق مجموعی طور پر ہمارے لئے ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے، جس میں صرف قانون کا خوف ہی نہیں بلکہ ہماری اخلاقیات اور سماجی قدروں کا بھی اہم کردار ہوتا ہے، تاہم بنیادی اخلاقیات کی خلاف ورزی کی مثالیں دیگر پیشوں کی طرح ہی صحافت میں بھی عام بات ہے۔
ضروری ہے کہ صحافت سے وابستہ تمام افراد اس ضابطہ اخلاق کے پابند رہیں گے جو بھارت میں پریس کونسل آف انڈیا و دستور ہند کی جانب سے مرتب کیے گئے ہیں۔ کسی بھی قسم کی شکایت کے لیےپریس کونسل سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ پریس سے وابستہ افراد کی یہ قانونی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ بلند ترین پیشہ ورانہ معیار کو برقرار رکھیں ، یہ ضوابط جس میں عوامی مفاد کو سامنے رکھ کران اخلاقی اقدار کا تعین کیا گیا ہے جن کے تحت کسی کے انفرادی حقوق اور عوام کے جاننے کے حق کا تحفظ کیا جاتا ہے، ضروری ہے کہ متفقہ ضابطے کے نہ صرف الفاظ بلکہ اس کی مکمل روح کا بھی احترام کیا جائے، انفرادی حقوق کے تحفظ کے ساتھ یہ اظہار خیال کی آزادی کی بھی حفاظت کرے۔
صحافت سے منسلک افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ غلط ، گمراہ کن، اور مسخ شدہ معلومات اور تصاویر شائع نہ کریں، اگر غیرمعمولی غلطی، گمراہ کن بیان اور حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا عمل سامنے آئے تو اسے فوری طور پر درست کرکے واضح کیا جائے اور اگر ضروری ہو تو معذرت بھی شائع کی جائے۔ پریس کسی کی حمایت کرنے میں آزاد ہے لیکن اسے پختہ حقائق، سچے بیانات اور نتائج کے درمیان فرق کو واضح رکھنا ہوگا۔ کسی کی ہتک عزت کی صورت میں اگر پریس فریق ہے تو ضروری ہے کہ اس کی وضاحت میں درستگی اور غیرجانبدارانہ انداز اختیار کیا جائے اس وقت تک کہ جب تک کہ کوئی متفقہ مفاہمتی معاہدہ سامنے نہیں آجاتا یا جب کوئی معاہدہ سامنے آجائے تو اسے بھی شائع کیا جائے۔
صحافی پر لازم ہے کہ وہ ہر شخص خواہ مرد ہو یا عورت کے نجی اور خاندانی معاملات، گھریلو، صحت کا احترام کرے، کسی کی ذاتی زندگی میں دخل انداز ہونے کی صورت میں اس کی وضاحت کریں۔
صحافی کوقانون یہ اجازت نہیں دیتاہے کہ کسی کو بلیک میل، پریشان یا خوفزدہ کرنے کی کوشش کرے، اگر کوئی شخص فون کرنے، تصویرلینے اور سوال کرنے سے منع کردے تو صحافی کو بھی رک جانا چاہیے، اگر وہ اپنی جگہ یا مکان پر صحافی کو مزید ٹھہرنے سے منع کرے تو اسے باہر آجانا چاہیے اور اس کا پیچھا نہیں کرنا چاہیے۔ذاتی صدمے اور غم کی صورت میں صحافی کا رویہ ہمدردانہ ہونا چاہئے اوررپورٹنگ کے دوران معاملے کی حساسیت کا خیال رکھنا چاہیے۔ میڈیا ٹرائل کے ذریعے صحافی کو اپنی بچکانی رپورٹنگ سے قانونی چارہ جوئی میں کسی طرح کی رکاوٹ کی وجہ نہیں بننا چاہئے۔ خودکشی کے واقعہ کی رپورٹنگ کرتے وقت خودکشی کے عمل کی غیرضروری اور اضافی تفصیل بیان کرنے سے گریز کیا جائے۔
جنسی جرائم کے شکار افراد خصوصا بچوں کی شناخت ظاہر کرنا قانونا جرم ہے، ان بچوں کی شناخت بھی پوشیدہ رکھی جائے جوکسی واقعہ کے چشم دید گواہ ہوں۔کسی خبر سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے اسپتال یا کسی دیگر اہم اور پرائیویٹ جگہوں پر جانے سے قبل صحافی اپنی شناخت ظاہر کریں اور کسی متعلقہ ذمہ دار سے اجازت لیں، معلومات حاصل کرنے کے دوران کسی کی پرائیویسی میں دخل اندازی پر بھی یہی پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔
جب تک جرم میں براہِ راست تعلق ثابت نہ ہو اس وقت تک کسی جرم میں ملوث ملزم یا مجرم کے عزیزوں، دوستوں اور رشتے داروں کی شناخت ظاہر نہ کی جائے۔ اگر ممکنہ طور پر کوئی بچہ کسی جرم کا گواہ یا خود شکار ہو اس پر خصوصی توجہ دی جائے لیکن قانونی چارہ جوئی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ میڈیا ٹرائل ہمارے نظام انصاف کے لئے ایک بڑا چیلنج بنتا جارہا ہے جو نہ صرف عوام بلکہ پولیس اور عدلیہ کے ذہن کو بھی پوری طرح پراگندہ کررہاہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ اجازت کے بغیر خفیہ کیمروں، ریکارڈنگ کے آلات، ذاتی فون کالز کی ریکارڈنگ، ای میلز اور میسجز، یا تصاویر اور ذاتی دستاویز کا بغیراجازت حصول یا انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات حاصل نہ کرے اور نہ ہی شائع کرے۔
پریس کو کسی شخص کو اس کے مذہب، رنگ و نسل، ذات، جنس یا کسی بھی دیگر مخصوص بنیاد کی بنا پر تعصب اور تفریق کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ جب تک اشد ضرورت نہ ہو اس وقت تک کسی فرد کے مذہب، رنگ و نسل، جنس، ذات اور کسی ذہنی اور جسمانی مرض کو ظاہر کرنے سے گریز کیا جائے۔
عوامی مفاد کے پیش نظر کسی بھی جرم کو بے نقاب کرنا، مجرمین کو قانون کے دائرے میں لانے کے لئے سنجیدہ کوششیں کرنا صحافت کی ذمہ داری ہے، سماج کو جرائم پیشہ افراد کی گرفت سے آزاد رکھنے میں میڈیا کا یقینا ایک اہم رول رہا ہے۔ ضروری ہے کہ پریس سے متعلق افراد کسی فرد یا ادارے کے بیان اور عمل سے عوام کو گمراہ ہونے سے بچانے کی کوشش کریں۔اظہارِ رائے کی آزادی یقینا عوامی مفاد کا ایک اہم حصہ ہے تاہم اس کے غلط استعمال کو روکنا بھی صحافت کی اہم ذمہ داری ہے۔
سماج کے ذمہ دار اور سنجیدہ افراد کی ذمہ داری ہے کہ اگر کوئی صحافی ، میڈیا چینل یا اخبار ضابطہ اخلاق کا پاس ولحاظ نہیں رکھتا ہے، کوئی جھوٹی یا ایسی خبر پیش کرتا ہے جو سرے سے جھوٹی ہے یا حقائق کی غلط تصویر پیش کرکے کسی فرد، گروپ، فرقہ، مذہبی طبقہ یا سماج کےمخصوص حصہ کی شبیہہ خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ایسی خبر یا رپورٹ پر نوٹس لیتے ہوئے اس کی شکایت پریس کونسل آف انڈیا میں کرنا سماجی ذمہ داری ہوجاتی ہے۔ پریس کونسل نے 1979 میں قواعد و ضوابط تیار کئے تھے جس میں شکایت کرنے کا بھی نظم قائم کیا تھا، جس کی روشنی میں پہلے ایڈیٹر کو شکایت بھیجی جائے گی، ایڈیٹر کو بھیجی گئی شکایت اور اخبار کے پتے و دیگر تفصیلات کے ساتھ شکایت پریس کونسل آف انڈیا کو بھیجنی ہوتی ہے، پریس کونس کے ضابطہ برائے انکوائری 1979 کے مطابق مقررہ مدت سبب واقعہ یعنی Cause of Action کی تاریخ سے چار مہینوں تک ہوگی۔ یقینا ایک اچھا اور پرسکون سماج کی تعمیر میں سماج کے سنجیدہ افراد کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہوگا تبھی ہم ایک ایسا سماج بنانے میں کامیاب ہونگے جہاں تمام شہریوں کے حقوق اور عزت و احترام کا پاس و لحاظ رکھا جائے گا، سماج میں مسائل پیدا کرنے والوں سے شکایتیں کرنے سے مسائل حل نہیں ہوسکتے ہیں، ضروری ہے کہ ہم مسائل پیدا کرنے والوں کے خلاف متعلقہ شعبوں اور اداروں میں شکایت کریں جن کو ان مسائل پر قانونی کاروائی کرنے کے اختیارات اور ذمہ داری دی گئی ہیں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)