تحریر:مولانا محمود دریابادی
اتراکھنڈ میں ابھی یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ نہیں ہوا ہے، ابھی صرف ایک کمیٹی بنانے کا اعلان ہوا ہے، جو ڈرافٹ تیار کرکے پیش کرے گی، پھر ریاستی حکومت اگر مناسب سمجھے تو اسمبلی میں پیش کرے، ریاست کے دونوں ایوانوں میں پاس ہونے کے بعد ریاست وہ مسودہ مرکز کو بھیجے گی۔
پھر مرکزی حکومت غور کرکے اس مسودے کو پارلیمنٹ میں پیش کرسکتی ہے، وہاں بھی دونوں ایوانوں سے پاس کرانا ہوگا۔ ـ پرسنل لاء چونکہ دستور میں دئے ہوئےبنیادی حقوق میں سے ہے اس لئے ریاستی حکومت اس سلسلے میں تنہا کوئی قانون بنانے کی مجاز نہیں ـ، ویسے تو دستوری حقوق کے خلاف پارلیمنٹ بھی قانون نہیں بناسکتی، اگر اکثریت کی بنیاد پر کوئی ایسا قانوں بنا بھی دیا جاتا ہے تو عدالت سے رد کرایا جاسکتا ہے۔
ہاں سو کی سیدھی ایک بات یہ بھی ہے کہ آج کل جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا زمانہ ہے، عدالت ہو یا پارلیمنٹ، ……اس لئے آگے کی جدوجہد کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
اس دیش میں صرف مسلمان ہی نہیں رہتے بلکہ کم از کم تین سو پرسنل لاء پر عمل کرنے والی اقوام بھی ہیں، …….. ان کا رد عمل بھی آنے دیجئے، ابھی سے ساری لڑائی اپنے سر لینے کی ضرورت بھی نہیں ہے، ڈرافٹ کا انتظار کرنا چاہئے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)