تحریر: سید تنویر احمد
ایجوکیشن کمیشن 1964 کو’ کوٹھاری کمیشن‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر دولت سنگھ کوٹھاری اس کمیشن کے چیئرمین تھے۔ اس کمیشن کو کئی وجوہات اور خصوصیات کی بنا پر بھارت کے تعلیمی سفر میں اہمیت حاصل ہے۔ کوٹھاری کمیشن اس وقت قائم کیا گیا تھا جب بھارت، چین کے ساتھ ایک جنگ کرچکا تھا اور کمیشن کے قیام کے بعد پاکستان کے ساتھ بھی جنگ ہو چکی تھی۔ پاکستان سے جنگ کے سبب اس وقت بھارت کو امریکہ کے حلیف ممالک کی فہرست سے خارج کردیا گیا تھا۔چنانچہ اس کا اثر یہ ہوا کہ امریکہ سے گندم کی درآمد پر روک لگا دی گئی تھی۔ ملک میں گیہوں کی کمی سے اجناس کی منڈی پر بڑا اثر ہوا تھا ۔ دونوں جنگوں کے سبب ٹکنالوجی اور زرعی شعبوں میں تعلیم اور ریسرچ کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا گیا۔ان جنگوں میں درون ملک سماجی زندگی میں قومی یکجہتی ،کثرت میں وحدت، سماجی برابری، سماجی خدمت، مساوی تعلیم کے مواقع جیسے موضوعات پر بحثیں چھیڑ دی گئی تھیں جس کا عکس کمیشن پر بھی پڑا تھا۔چنانچہ کمیشن نے زرعی یونیورسٹیوں میں اصلاحات اور ان کے معیار کو بلند کرنے پر زور دیا۔ اس کے نتیجہ میں سوامی ناتھن نے گرین ریولیوشن ( سبز انقلاب ) کا نعرہ بلند کیا تھا۔
ٹیکنالوجی کے میدان میں کوٹھاری کمیشن نے آئی ٹی آئی ، پالی ٹیکنک کے علاوہ معیاری، ٹکنالوجی کے اداروں کے قیام پر حکومت کی توجہ مبذول کرائی تھی۔کمیشن نے سائنسی میدان میں تحقیقات کو بڑی اہمیت دی تھی۔ سائنسی میدان میں تحقیقات کے لئے اسکالر شپس کی اسکیم کو بھی اُن دنوں تجویز کیا گیا تھا۔ کوٹھاری کمیشن نے سائنسی تعلیم کو جو اہمیت دی تھی اس کا اعتراف کرتے ہوئے بعد کی حکومتوں نے سائنسی میدان میں تعلیم حاصل کرنے والوں کے لئے دولت سنگھ کوٹھاری اسکالر شپ اور فیلو شپ کا بھی اعلان کیا تھا۔سائنس کی تعلیم کے حوالے سے کوٹھاری نے ہندوستانی سماج میں رائج توھم پرستی پر بھی ضرب لگائی تھی اور اُن روایات کو رد کرنے کی بات کہی تھی جو بھارتی قدیم سماج کا حصہ ہیں لیکن سائنس کی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے۔
قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے متعلق یہ پروپیگنڈہ کیاگیا کہ پالیسی کو تمام طبقات کے لئے مفید اور قابل قبول بنانے کے لئے بڑے پیمانے پر تجاویز حاصل کی گئی ہیں۔ جبکہ یہی طریقہ تمام کمیشنوں نے اختیار کیا تھا بلکہ زیادہ خوبی کے ساتھ استعمال کیا تھا۔ مثلاً کوٹھاری کمیشن نے اپنی رپورٹ کو ترتیب دینے کے لئے `12 ٹاسک فورس اور 7 ورکنگ گروپ بنائے تھے جنہوں نے 100 دن ملک کے مختلف مقامات کا دورہ کیا تھا۔9 ہزار تعلیم سے وابستہ افراد سے مشاورت کی گئی تھی۔ کمیشن میں 17 ارکان شامل تھے۔اسی طرح قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں یہ بلند بانگ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہم اگلے دو دہائیوں میں تعلیم کے حوالے سے ’ وشو گرو ‘ بن جائیں گے۔ جبکہ کچھ اسی سے ملتی جلتی کی خواہش کوٹھاری کمیشن نے بھی کی تھی۔ اپنے اس خواب کو پورا کرنے کے لئے ڈی ایس کوٹھاری نے ایک نمایاں اقدام کیا تھا۔ وہ یہ کہ انہوں نے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جن میں برطانیہ ، امریکہ ، سوویت یونین اور فرانس شامل تھے، یہاں کے ماہرین تعلیم سے مشورے حاصل کئے تھے۔ اتنا ہی نہیں ،یو این او میں اُن دنوں تعلیم کے امور کے نگراں جی ایف میک ڈوگل کو بھی بحیثیت خصوصی مدعو کمیٹی میں شامل کرلیا گیا تھا۔ لیکن اس طرح کا کوئی عمل قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے وضع کرنے والوں نے اختیار نہیں کیا۔ البتہ یو این او کے تعلیمی منشور کے اہم نکتہ Sustainalbe development growth. (پائیدار ترقی ) کو موجودہ پالیسی نے اختیار کیا ہے اور پالیسی میں اس کی شمولیت نمایاں درجے تک ہے۔
کوٹھاری کمیشن نے ’’ تعلیمی مواقع میں مساوات ‘‘ ( Equalisation of Educational Opportunity) کی بات پُر زور انداز میں کہی تھی۔لیکن بس یہ نعرہ بن کر رہ گیا ہے۔ آج ہمارے تعلیمی نظام نے سماج میں ایک نئی تقسیم کو جنم دیا ہے۔تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ ۔ اتنا ہی ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی، لیکن مزید تقسیم ہورہی ہے۔آئی اے ایس سب سے اونچی پائیدان پر، پھر ڈاکٹرس، انجینئرس وغیرہ ۔کوٹھاری کمیشن نے جس تشویش کا اظہار کیا تھا وہ آج بھی سماج میں باقی ہے بلکہ زمانے کے ساتھ بہتری کے بجائے تعلیمی مواقع میں عدم مساوات کی کیفیت بڑھی ہے۔ اگر ہم موجودہ 2020 پالیسی کا موازنہ کوٹھاری کمیشن سے کریں تو چند نمایاں نکات سامنے آتے ہیں :
(الف ) دونوں اخلاق کی بات کرتے ہیں لیکن 2020 کی پالیسی اخلاق کا منبع قدیم ہندوستانی روایات کو مانتی ہے تو کوٹھاری کمیشن کہتا ہے کہ انڈین کلچرسے اخلاق حاصل کئے جائیں۔ قدیم ہندوستانی روایات کا ذکر ہوتا ہے تو ایک مخصوص نظریئے سے متعلق اخلاق کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اور جب ’ انڈین ‘ روایات اور کلچر کی بات کہی جاتی ہے تو اس کا اشارہ اس نئے بھارت کی طرف ہوتا ہے جس کا وجود 1947 کے بعد ہوا ہے۔ آزاد بھارت تکثیری سماج کی حسین تصویر ہے ۔ کوٹھاری کمیشن کے اس نظریئے کو ملک کی پہلی تعلیمی پالیسی 1968 میں بھی شامل کیا گیا تھا۔
(ب) کوٹھاری کمیشن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ طلباء میں سماج کی خدمت کا جذبہ پیدا ہو اور قومی یکجہتی پروان چڑھے۔ سماجی خدمت کا ذکر موجودہ پالیسی میں بھی موجود ہے لیکن اس حوالے سے کوئی واضح پروگرام پالیسی نے تجویز نہیں کی ہے۔ موجودہ پالیسی جب قدیم ہندوستانی تصورات کی بات کرتی ہے تو ان تصورات اور روایات کو سائنس کی کسوٹی پر پرکھنے کا ذکر نہیں کرتی۔ کوٹھاری کمیشن نے بھی اس سے مماثلت رکھنے والا ایک فقرہ لکھا ہے جس میں کہا گیا کہ ’’ ہم سائنس سے نا ٹکرانے والے ان قدیم ہندوستانی اصولوں اور روایات کو فروغ دیں گے جو ملک کی ترقی اور بہبودی کے لئے معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں‘‘۔
(ج) کوٹھاری کمیشن نے تعلیم کے ذریعہ جس سماج کی تعمیر کا تصور پیش کیا تھا وہ سوشلسٹ سوسائٹی ( Socialist Society ) کا تھا۔ اس منزل کی جانب ہمارا تعلیمی نظام سفر نہیں کرسکا بلکہ ہمارا تعلیمی نظام سماج میں سرمایہ دارانہ رجحانات پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوتا رہا ہے۔ سماج میں عدل و انصاف اور مساوات کی بات اب تعلیم کا موضوع کم اور سیاست دانوں کی تقریر کا موضوع زیادہ بن گیا ہے۔کوٹھاری کمیشن نے سماج کی تعمیر کا ایک تصور پیش کیا تھا جس پر اختلاف کی گنجائش کم تھی لیکن موجودہ پالیسی جس سماج کی تعمیر کا تصور پیش کرتی ہے وہ غیر واضح ہے۔ اگر اسے سمجھا جائے تو وہ ملک میں آباد کئی اکائیوں کی نفی کرتے ہوئے تکثیری سماج کو قبول کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔
(د) اخلاقیات کے حوالے سے کوٹھاری کمیشن نے Comman citizenship and culture کی بات تحریر کی ہے۔ کم و بیش اسی طرح کا تصور رکھنے والی اصطلاحات کو دیگر کمیشنوں نے بھی پیش کیا تھا۔ ’ مشترکہ کلچر اور شہریت ‘ ہمارے ملک کے مختلف سماجی مسائل اور اختلافات کا ایک موثر حل ہے۔یہ نظریہ طلباء کے اندر تمام شہری کے برابر ہونے والا تصور مضبوط کرتا ہے اور ان اخلاقی اصولوں کو پروان چڑھانا ہے جو تمام مذاہب میں مشتر ک ہیں۔اسے مدلیار کمیشن نے ’ فطری مذہب ‘ کا نام دیا تھا۔ہم گزشتہ کمیٹیوں ، کمیشن اور تعلیمی پالیسیوں کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں تو موجودہ پالیسی میں ایک بہت بڑی تبدیلی نظر آتی ہے ۔لیکن اس تبدیلی کوایک عام قاری بآسانی نوٹ نہیں کرسکتا۔ اسے بین السطورمیں پڑھا جاسکتا ہے۔ تعلیمی میدان میں کام کررہے افراد کے سامنے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ملک کا مستقبل کلاس رومس میں طئے کیا جاتا ہے ۔ ہمیں دستور ہند کی روشنی میں مثبت اقدامات کے ذریعہ اپنے وطن اور نسل کو بچانے کی حتی الوسع کوشش کرنا ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)